امریکہ مسلمانوں سے خائف ہے؟


کہتے ہیں خوش فہمی اور غلط فہمی دونوں کی حد نہیں ہوتی جتنی چاہے پا ل لو۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کو بیک وقت یہ دونوں لا حق ہیں مسلمانوں کو یقین کی حد تک خوش فہمی ہے کہ امریکہ مسلمانوں سے خائف ہے۔ وہ مسلمانوں سے ڈرتا ہے۔ اور غلط فہمی ہے کہ امریکہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ تو جناب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ مسلمانوں کو کیوں ختم کرنا چاہتا ہے اس صورت میں کہ جب مسلمان خود ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں۔

مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے تو امریکہ کو ایسی حماقت کرنے کی۔ کیا ضرورت ہے۔ لیبیا، عراق، کویت میں کیا ہوا۔ شام کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہے۔ یہ سارے مسلم ملک ہیں ان میں سے کوئی بھی غیر مسلم ملک نہیں۔ امریکہ اسلام کے نام لیواؤں کو کیوں ختم کرنا چاہے گا کہ مسلمان تو خود ہی ایک دوسرے کو مسلمان ماننے کو تیار نہیں۔ ایک فرقہ اہل تشیع کو کافر قرار دیتا ہے تو دوسرا فرقہ اہل حدیث کو۔

سچ پوچھیے مسلمان تو خود ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے کہ ان میں سے اصل مسلمان کون ہے یہاں تو ایک فرقے والا دوسرے فرقے والے کو کافر کہہ کر ایمان سے خارج قرار دے دیتا ہے تو کوئی دوسرا کیسے مسلمان کو ختم کرنا چاہے گا یہ تو خود ہی کافر کافر کھیل کر ایک دوسرے کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ پھر تاثر آتا ہے کہ امریکہ ایک منصوبے کے تحت مسمانوں کو بے راہ روی کی طرف مائل کر رہا ہے۔ خدا کا نام لو بھائی اس قبیل کی تو پرانی نسل بھی راہ پر نہیں تو کوئی دوسرا نئی نسل کو کیسے بے راہ کر سکتا ہے۔

امریکہ پر فحاشی پھیلانے کا الزام لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس وقت عیاشی کا سب سے بڑا اڈہ ایک مسلم ملک ہے جس میں ہر طرح کی عیاشی کی ورائٹی پائی جاتی ہے اکثر مسلمان شیوخ نے تو ویسے بھی ہر حرام لذت خود پر حلال کر رکھی ہے۔ پورن فلمیں مسلمان اپنے ملکوں میں بیٹھ کر دیکھیں اور الزام امریکہ پر لگا دیا جائے۔ امریکی بے حیائی کا رونا رونے والوں نے سوچا کہ جب مسلمان ملک میں یونیورسٹی طالبات کو پوری آستین پہن کے آنے اور کیفے ٹیریا میں طلبہ و طالبات کو ایک ساتھ نہ بیٹھنے کا نوٹیفیکیشن آتا ہے تو واویلا کیوں مچ جاتا ہے۔

فحاشی پھیلانے کا الزام لگانے والے اپنی نجی محفلوں میں خواتین کے مجرے کرواتے ہیں جس میں مرد حضرات نیم برہنہ عورتوں پر لاکھوں کی ویلیں کرنے کو خوشی کا موقع قرار دیتے ہیں اکثر بزنس ڈیل عورت کو بطور تحفہ پیش کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ تو اس بے راہ روی کاذمہ دار کون امریکہ یا؟ پھر بھی اگر آپ مصر ہیں کہ امریکہ ہی فحاشی کا ذمہ دار ہے تو آپ بے حیائی کے سامان کو نہ دیکھیں۔

اور سنیں امریکہ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو جناب یہ بات بھی غلط ہے کہ جب مسلمان خود ہی ترقی نہیں کرنا چاہتا تو اس میں امریکہ کا کیا قصور۔ تعلیمی لحاظ سے امریکی یونیورسٹیاں ٹاپ ٹین میں شامل ہیں امریکی ادارہ ناسا سیاروں تک جا پہنچا اور مسلمانوں کو ابھی تک ادب تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ وہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں جھنڈے گاڑھ رہا ہے اور ہم ابھی تک پیروں فقیروں کے عَلم تلے سے نکلنے کو تیار نہیں۔

اس نے سٹِم سیل سے بچے پیدا کر کے بے اولادوں کے آنگن میں خوشیاں بکھیر دیں اور ہم ٹیسٹ ٹیوب بے بی حرام ہے یا حلال کے بکھیڑے سے نہیں نکل سکے۔ وہ علم حاصل کر کے نت نئی ایجادات کر رہا ہے اور ہم ان ایجادات کو استعمال کر کے سمجھتے ہیں کہ امریکہ پہ احسان کر رہے ہیں ایک اسلامی ملک نے جیسے تیسے ایٹم بم بنایا اور پوری مسلم امہ اس پہ اترائی پھرتی ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے تو امریکہ ہم سے ڈرتا ہے۔ جبکہ ہم تو اسے چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس کے لئے بھی ہمت درکار ہوتی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔

وہ ہم سے تب ڈرے جب ہم علم کے ذریعے اسے مات دیں سائنس کی دنیا میں انقلاب لے آئیں۔ جبکہ ہم تو کنوئیں کے مینڈک ہیں ترقی کا سوچتے بھی نہیں اور خیال کرتے ہیں امریکہ ہم سے ڈرتا ہے۔ کیا کبھی امریکہ یا امریکی عوام نے آپ سے کہا کہ بھائی آپ ترقی مت کرو، آگے مت بڑھو، کشکول تھامے رکھو، خود کچھ نہ کرو اور کاسہ گدائی لے کے ہماری طرف آتے رہو، ہماری بنائی ادویات استعمال کرو، ہماری ایجاد کی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن خود کچھ نہ کرو۔

امریکہ جو دنیا میں سپر پاور کے نام سے جانا جاتا ہے اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں سے ڈرتا پھرے جن کے شہریوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، صحت کی سہولیات نہیں، تعلیم نہیں، وہ قحط و افلاس کے مارے مسلمانوں سے کیوں ڈرنے لگا جن کے پاس نہ بارود کے ہتھیار ہیں نہ علم کے ہتھیار اور نہ اتنے وسائل کہ وہ دوسرے ملکوں سے ہتھیار خرید سکیں، نہ اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔ جن کے کچھ ملک افلاس میں اور کچھ قرض میں ڈوبے ہیں جن میں اتفاق و اتحاد نام کی کوئی شے نہیں جس کی مسلم آبادی کئی دہائیوں سے فلسطین اور کشمیر میں ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اور ان مسلمانوں میں اتنی جرات نہیں کہ اتحاد کر کے ان مظلوموں کی مدد کر سکیں۔

وہ امریکہ جس کے پاس جدید ترین اسلہ موجود ہو، ایٹمی ہتھیار ہوں، مالی طور پہ اس قدر مستحکم ہو کہ وہ اربوں ڈالر امداد کے نام پہ مسلمانوں میں بانٹتا ہو، وہ ملک جو دن کو رات کہہ دے اور کسی میں اتنی جرات نہ کو کہ سچ بتا سکے بلکہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وہ دن کو رات ہی مان لیں، جن کے ایٹم بم رکھنے والے اسلامی ملک میں اتنی طاقت نہ ہو کہ آنکھیں نہ سہی ایٹم دکھا کر ہی کشمیر کا مسئلہ حل کروا سکے، بلکہ اسی کا برادر اسلامی ملک مسلمانوں پر ان کی زندگی تنگ کرنے والوں کے ساتھ جا کر تجارتی معاہدے کر آیا ہو۔

جن کی معیشت امریکی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہو، جو اس بات پہ امریکہ سے ڈرتے ہوں کہ کہیں امریکی ایئر پورٹ پر ان کے کپڑے نہ اتروالئے جائیں اور جس کی اپنی کرسچن آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہو وہ امریکہ مسلمانوں سے کیوں ڈرے گا۔ یہ ناقص العقل لوگوں کے دماغ کی اختراع ہے خود کو تسلی اور جھوٹی خوشی دینے کا ایک طریقہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کہ۔ جس جذبہ ایمانی کا مسلمان دعوی کرتے ہیں وہ کب کا ختم ہو چکا۔ اب جوش ایمانی ہے نہ غیرت مسلمانی ہے اب تومفادات کا پلڑابھاری ہے۔

اگر اپنے اپنے مفادات عزیز نہ ہوتے تو امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر گز پرائی آگ میں کود کر اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتے اور پھر دس سال پرائی آگ میں کودنے کا تاوان دہشت گرد حملوں کی صورے بھگتتے۔ امریکہ۔ کو خوش کرنے کے چکر میں ہم امریکہ افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ تو دیتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لئے اس سے دو ٹوک بات نہیں کرتے۔ مسلمانوں کو یہ وہم بھی ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا ہے چلیں یہ بھی مان لیں تو جب آپ ان ساشوں کو سمجھتے ہیں تو امریکہ سے دوری کیوں نہیں اختیار کرتے، اس کی قربت حاصل کرنے کے لئے کیوں مرے جاتے ہو آپ نہ جاؤ اس ملک میں، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو، خود ایجادات کرو، عزت سے جینا سیکھو نہ کشکول لے کے جاؤ، امداد لو نہ قرض۔ خدا کے لئے سمجھ جائیں کہ امریکہ آپ سے خوفزدہ نہیں۔ وہ مسلمانوں سے نہیں ڈرتا بلکہ آج کا مسلمان اپنی حالت کا خود ذمہ دار ہے اغیارنہیں۔ یہاں تو یہ عالم کہ میاں بیوی میں لڑائی ہو یا بہو کے ہاتھوں ساس کی پٹائی سب امریکی سازش قرار دے دیا جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).