مولانا انتظار کریں


مولانا فضل الرحمن ملکی سیاست کے بڑے زیرک ’معتدل اور مذہبی سیاستدان مانے جاتے ہیں اور وہ بغیر سوچے سمجھے سیاست کی بند گلی میں پاؤں نہیں رکھتے مولانا کا آزادی مارچ کراچی سے چیونٹی جیسا سفر طے کرتے ہوئے ملکی دارالخلافہ اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالتے ہوئے دھرنا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مولانا جب آزادی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو اگلے دن انہوں نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم کو استعفا دینے کے لئے دو دن ڈیڈ لائن دی تھی لیکن تاحال ڈیڈ لائن کی تاریخ گزرنے کے باوجود مولانا کا دھرنا مارچ اپنی آئندہ حکمت عملی کی سمت کا تعین کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اے پی سی میں شریک ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے راہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ پارٹی قیادت کے بغیر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے اور یوں آزادی مارچ کے ڈی چوک جانے کا پلان ادھورا رہ گیا۔

دونوں جماعتوں کے قائدین نے مولانا کی دھرنا سیاست کی پشت پر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اس کے باوجود مولانا حکومت سے بیزار اور ان دونوں جماعتوں سے بے حد خوش دکھائی دیتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کا دھرنا جوں جوں طویل ہوتا جا رہا ہے مولانا کا رویہ مزید جارحانہ ہوتا جا رہا ہے مولانا نے ایک نجی ٹی وی کے انٹرویو میں کہا کہ اب وہ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور ایک انچ بھی پیچھے جانے کا راستہ نہیں اس بیان سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے مولانا فیصلہ کن جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں مذاکرات ناکام ہونے کے بعد مولانا نے اپنے پلان بی پر عملدرآمد کا حکومت کو عندیہ دیدیا ہے پلان بی میں شاہراؤں کی بندش ’شٹر ڈاؤن اور جلسے جلوس مظاہرے اس پلان کا حصہ سننے میں آرہے ہیں یہ تو وقت بتائے گا کہ مولانا کے پلان بی کی زنبیل میں سے کون سی بلی نکل کر سامنے آتی ہے۔

بقول مولانا اسلام آباد سے دھرنا اسی صورت ختم ہو سکتا ہے اگر عمران خان وزارت عظمیٰ سے اپنا استعفا لکھ کر ان کی جیب میں ڈال دیں جو کہ ناممکن ہے اگر مولانا صاحب اپوزیشن سمیت تمام تر سیاسی مزاحمت کے باوجود بھی وزیر اعظم عمران خان سے اپنے مطالبات نہیں منوا سکتے اور سیاسی شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ مولانا کی عزت سادات کا پھر کیا ہوگا۔ دراصل مولانا کی حکومت مخالف تحریک کے مقاصد کا حصول صرف عمران خان کے استعفے تک محدود ہے اس کے علاؤہ ان کے پاس اور ان کے مارچ میں شریک سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا رول ماڈل موجود نہیں جس میں ملک و ملت کے مسائل کا حل موجود ہو۔

مولانا اب تک عالمی اسٹیبلشمنٹ کے تیار کردہ میثاق جمہوریت کے تحت نواز اور زرداری کے دور اقتدار میں پوری طرح تمام تر سہولیات اور لوازمات سے محفوظ ہوتے رہے جونہی تحریک انصاف کی حکومت مولانا کے بغیر اقتدار میں آئی مولانا تب سے اس حکومت کو چلتا کرنے کے لئے گٹھ جوڑ میں مصروف عمل رہے لیکن ہر بار ناکامی کے باوجود جب محسوس کیا کہ اب وہ اقتداری کھیل کا حصہ نہیں بن سکتے تو مولانا نے ٹھان لی کہ اب کھیلنے بھی نہیں دینا سنجیدہ عوامی حلقے مولانا کے آزادی مارچ کے مقاصد کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ مولانا ڈنڈے کے زور پر این آر او لینا چاہتے ہیں اور مولانا اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ پاکستان دشمن قوتیں اس مارچ کے ذریعے ملک کے اندر سے حملہ آور ہو سکتی ہیں گو حکومت اور عسکری قیادت تمام تر صورتحال سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔

موجودہ حالات میں جب لوگ مسائل کے حل کی بات سننا چاہتے ہیں ’مہنگائی کے خاتمے کے لئے ترجیہی بنیادوں پر اقدامات کے خواہاں ہیں‘ لاقانونیت اور امن و امان کی حالت بہتر دیکھنا چاہتے ہیں ’معاشی و سیاسی استحکام کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب پر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ جب کشمیر کے ایشو پر پوری قوم یکسو ہے تو ایسے نازک ترین حالات میں مولانا وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے لئے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں سنجیدہ عوامی حلقے اور اہل دانش مولانا کے اس سیاسی راگ کو بے وقت کی راگنی سے تشبہیہ دے رہے ہیں۔

آزادی اظہار رائے ہونی چاہیے اس سے دانش و حکمت کی نئی راہیں کھلتی ہیں حالات کا ادراک اور فیصلہ سازی میں مدد ملتی ہے ایسے ہی اس کی افادیت پر زور نہیں دیا جاتا معاشروں کی تشکیل کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے۔ مہذب معاشروں میں دیکھیں آپ کو معلوم ہوگا آزادی اظہار سے حکومتوں کو دوام اور معاشرے میں تبدیلیاں آتیں ہیں مولانا ذہین و فطین سیاستدان ہونے کے باوجود بہت بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے ہیں لوگ ان سے ملکی بہتری اور اچھائی کی توقع رکھتے ہیں بہتر ہوتا مولانا وزیر اعظم کے استعفیٰ کی بجائے غربت و بیروزگاری اور مہنگائی کے خاتمے اور قومی مسائل کے حل کے لئے آزادی مارچ کرتے انہیں پھر کسی بھی سیاسی جماعت کی ہمنوائی حاصل ہوتی یا نہ ہوتی عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ان کے ساتھ ضرور کندھا ملا کر کھڑی ہوتی لیکن بد قسمتی سے ملکی سیاست کی تاریخ شاہد ہے سیاستدانوں نے صرف اقتدار حاصل کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جلسے ’جلوس‘ مظاہرے اور مارچ کیے لیکن کبھی بھی عوام کے مسائل اور ملکی بہتری کے لئے احتجاجی روش نہیں اپنائی۔

ضروت اس امر کی ہے پاکستان انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے اس مشکل وقت سے نکلنے کے لئے حکمت عملی اور دانش کی ضرورت ہے شعلہ بیانی اور گھیراؤ جلاؤ سے ملکی اور عوامی مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ ملک کے لئے مزید چیلنجز پیدا ہوں گے جس کے لئے یہ ملک اور عوام متحمل نہیں۔ مولانا کے بے وقت آزادی مارچ کے باعث جہاں ملکی سیاسی صورتحال بے یقینی کا شکار ہو چکی ہے وہیں کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے مولانا کی ضد اورہٹ دھرم سیاست پر سنجیدہ حلقوں میں تشویش پائی جارہی ہے کہ ایسے نازک وقت میں مولانا کس کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں جس سے ملک و ملت کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

مولانا سمجھدار اور زیرک سیاستدان ہیں لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک چلا کر وہ اپنے کن عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں المیہ یہ ہے کہ سیاستدان فوج کو برا بھی کہتے ہیں اور فوج کا ساتھ بھی چاہتے ہیں مولانا کے مارچ کے اصل مقاصد کا اندازہ ن لیگ ’پیپلز پارٹی‘ اچکزئی اسفند یار ولی کی شمولیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سب کا اپنا اپنا درد ہے یہ سب اپنے اپنے کرپشن کیسز سے خلاصی کے لئے اس آزادی مارچ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

مولانا ایک زیرک سیاستدان کے طور پر با عزت واپسی کا راستہ نکال لیں تو بہتر ہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ملکی استحکام کی ضامن بن کر ایک صفحہ پر متحد ہیں جس کا پیغام مولانا کو بڑے واضح انداز میں پہنچ بھی چکا ہے ایسا نہ ہو کہ ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“ جب معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی تو ریاست پوری طاقت کے ساتھ قانون اور آئین کی عملداری کو یقینی بنائے گی سیاسی بصیرت کے حامل مولانا فضل الرحمن وقت اور حالات کی نزاکت کی نبض کو سمجھیں۔ اور انتظار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).