کوئٹہ میں نجی اسٹوڈنٹس ہاسٹل ایک منافع بخش کاروبار


بلوچستان میں ہر چیز کمرشلائیزڈ ہوتا جا رہا، نجی اسپتالوں سے لے کر نجی تعلیمی اداروں تک، نجی اسپتالوں کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں پرسٹامول ناپید اور نجی تعلیمی اداروں سے سرکاری سکول ویران اور غریب کے بچے بھی بنیادی انسانی سہولیات تعلیم سے تیزی کے ساتھ محروم ہوتا جا رہا۔ جس کی بنیادی وجہ طبقاتی نظام تعلیم ہے۔ مگر ان دونوں شعبے کے ساتھ ساتھ آج کل بلوچستان خاص کر صوبائی کیپیٹل کوئٹہ میں ایک اور رجحان اُن غریب طلبا و طالبات جو بلوچستان کے مختلف دور دراز علاقوں سے سیکڑوں کلومیٹر آتے ہیں کاروباری اور کمرشلڈ مافیا نے پرائیوٹ اسٹوڈنٹس ہاسٹل کے نام سے بھاری فیس وصول کر کہ غریب عوام کے غریب بچوں کو لوٹ رہے ہیں۔

آج کل کوئٹہ میں ہر دوسرے گلی میں آپ کو سائن بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے کہ اسٹوڈنٹس ہاسٹل صاف ستھرا ماحول مگر حقیقت میں بالکل یہ مافیا کسی بھی سہولت طلبا کو میسر نہیں ہیں۔ جن پلازوں کے کمروں کو اسٹوڈنٹس ہاسٹل کا نام دیا گیا وہ محض بیھٹنے کی جگہ ہوسکتی، وہاں ایسی کوئی ماحول نہیں طلبا ذہنی طور پر سکون ہوکر سلف اسٹڈی کریں۔ طلبا بے چار ے اتنے بے بس و لاچار ہیں کہ جن کمروں کو ہاسٹل روم کا نام دیا گیا وہ سات، آٹھ ( گز۔ یارڈز) کے ایک کمرہ چار بندوں کے لیے ہے بڑی مشکل سے ایک دوسرے کے پیر سیدھا ہوتے ہیں۔ اسی ایک کمرے کے فی کس بندے کو 6500,7000 ماہانہ لیا جاتا ایک کمرہ 28000 لیتے ہیں سہولت کھانے جیل جیسی ہیں۔ مگر اس مافیا کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے نا حکومت کو اس بارے میں علم ہے اور نا انتظامیہ نے کبھی اس طرف توجہ دیا۔

طلبا ہر جگہ مظلوم ہیں وہ اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا کوئی اور سہارا نہیں ہے۔

ان ہاسٹلز میں زیادہ تر وہ اسٹوڈنٹس رہائش پزیر ہیں جو میڈیکل، انجینئر ز، سمیت دیگر ایکڈمک تیاریوں کے سلسلے سے مختلف اضلاع سے آتے ہیں۔ وہ اپنی ایک، دو گھنٹے کی کوچنگ کے بعد اگر اپنے کمرے میں آکر تیاری یا سلف اسٹڈی چاہیں تو بالکل نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح کا نا ماحول ہے اور نہ ہی کمرے میں سکونت ہے۔ کیونکہ اس ہر کوئی اپنے علاقے اکیلا آتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ہم خیال ڈھونڈ لیں اور بعد روم ایٹ بنیں تب تک انہیں سائے کی ضرورت ہوتی ہے وہ بے چارہ جس ہاسٹل میں جا جاتا ہے پھر وہ ہاسٹل مالکان کی صوابدید ہے کہ ان کو کس ذہن و مزاج کے ساتھ ایڈجسٹ کرتا ہے۔ تو اس ماحول میں اسٹوڈنٹ بے ڈسٹرب ہوگا۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بے زار ہوکر واپس علاقے یار در در کی ٹھوکریں کھا کر کبھی اس دوست اور کبھی دوسرے دوست کے مہمان بنتا ہے اور واپس علاقہ جانے پر مجبور ہوگا۔

حکومتی سطح پر طلبا کے ایسے مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے یا تو سرکاری سطح پر ایسے ہاسٹل قائم کریں جو مناسب فیس سے تیاری کے غرض سے آئے ہوئے طلبا پلاٹ کیے جائیں یا یہی نجی ہاسٹلز کا ایک میکانزم کے تحت مالکان کو پابند کرے یا نجی ہاسٹلز کو سبسڑی دے کر طلبا پہ بوجھ کم کرے۔ یہ معاشرے اور یوتھ کے کچھ ایسے مسائل ہیں کہ جن کو نظر انداز نہیں کرنے چائیے کیونکہ ہماری امیدیں انہی نوجوانوں سے وابستہ ہیں اگر اس ابتدائی تعلیم کے دوران ان پہ اتنی پریشانی کا سامنا ہوگا تو کسی بھی وقت مایوسی کا شکار ہوگا یا تو پڑھائی چھوڑ کر منشیات کا آدی ہوگا یا دیگر سماجی بُرائیوں کا حصہ بنے گا جو اسوقت ہم اس کے متعمل نہیں ہوسکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).