گلگت سے کالام تک


رات کے گیارہ بجے جمشید خان دکھی صاحب (جنرل سیکریٹری حلقہ ارباب زوق گلگت) کے وساطت سے امین ضیاء صاحب کا نمبر مل گیا، امین ضیاء صاحب سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ میں گلگت سے احسان علی دانش کو لے کر کالام پہنچ گیا ہوں، اورکل صبح سیمینار کا پہلا دن ہے۔ میں خود پر ہنس رہا تھا کہ چند روز قبل پاسپورٹ کے مسئلے کی وجہ سے افغانستان کا ایک سیمینار مجھ سے چھوٹ گیا تھا اور اب یہ دوسرا سیمینار تھا جو دور ہوتا جارہا تھا۔

امین ضیاء صاحب (صدر حلقہ ارباب زوق) نے ڈھارس بندھائی کہ صبح روانہ ہوگئے تو سیمینار کے دوسرے دن تک پہنچ سکتے ہیں۔ دیوانہ وار معلومات لینا شروع کردیا کہ گلگت سے سوات کے لئے کون سی گاڑیاں جاتی ہے اور خوش قسمتی سے چند منٹوں میں جوٹیال سے سوات جانے والی ٹرانسپورٹ سروس کے منشی کا نمبر مل گیا اور صبح کے لئے بک کرادیا۔

صبح بے چینی سے ٹہلتے ٹہلتے گیارہ بج گئے کہ ڈرائیور کا فون آگیا۔ گلگت شہر میں پاکستان کے مرکزی انجمن تاجران کے کال پر جزوی ہڑتال کی گئی تھی۔ گاڑی میں ڈرائیور کے علاوہ دو سواری تھے دونوں کی منزل سوات تھی جو سکردو سے خریدی گئی ایک گاڑی کے ’لانجے‘ پر آئے ہوئے تھے اور کاغذات لے کر واپس سوات روانہ تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی تبدیلی سرکار پر لعن طعن شروع ہوگئی جس کا محور شدید مہنگائی تھی۔ ہمارا ڈرائیور بھی بشام کے آس پاس کسی علاقے کا رہائشی تھا تاہم حیرت انگیز طور پر انہیں تمام زبانیں آتی تھیں، صدام حسین کے دور میں وہ عراق میں امریکی سامان کی رسد میں مصروف تھا اور عربی زبان سے بھی آشنا تھا۔

جوٹیال بس اڈے میں پہنچ کر انہوں نے چوتھی سواری کی بھرپور کوشش کی لیکن نامراد نکلنا پڑگیا۔ سلام دعا کی گپ شپ کے بعد راستے سے موسیقی چلانا شروع کردی۔ پشتو زبان گو کہ موسیقی میں بڑی دلچسپ ہے لیکن فرنٹ سیٹ پر براجمان کی فرمائش پر انتہائی سست رفتار قسم کے گانے لگائے گئے جنہیں ’برداشت‘ کرنا پڑا۔ اس دورانیے میں صرف ایک گانا مقامی موسیقی کے دھن کا تھا جسے بار بار چلایا جاتا رہا جو ظفر وقار تاج صاحب کے ’ستمگار‘ پر پشتو میں بنایا گیا ہے۔

گلگت سے رائیکوٹ تک کا سفر حسب سابق پرسکون ہی رہا تاہم رائیکوٹ برج سے وہ سفر شروع ہوگیا جس کی مثال خواتین کے حمل سے دی جاتی ہے، پکے اور تارکولی راستے پر آہ نہ بھرنے تک دوبارہ کھنڈرات نما سڑک پر گاڑی اتر آتی تھی۔ میری درخواست پر ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار تیز رکھی، راستے میں دو تین مقامات پر ڈرائیور نے دیگر سواریوں سے بھی پوچھا کہ اگر بھوک لگی ہے تو رک جاتے ہیں ورنہ سیدھے سمرنالہ پہنچیں گے جہاں پر مسافروں کے لئے اچھے خانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

شتیال کے علاقوں میں پہلی مرتبہ پولیس کے علاوہ دیگر سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد موجود تھی اور مکمل چوکس تھی، ڈرائیور نے ایک چیک پوسٹ پر پولیس جوان سے مقامی کسی زبان میں پوچھا تو بتایا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کی آزادی مارچ کے قافلے یہاں سے گزرنے والے ہیں جس کے لئے سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے، جس پر مزید مصالحہ لگاتے ہوئے ڈرائیور نے کہا کہ میں گلگت سے آرہا ہوں اور گلگت سے بہت بڑا اجتماع روانہ ہے۔ اس کے بعد ہمیں جس کسی بھی چیک پوسٹ پر روکا گیا وہاں پر ڈرائیور ازراہ تفنن پہلے ہی کہتے تھے کہ ہم آزادی مارچ کے قافلے میں شریک ہیں۔

تقریباً ساڑھے تین بجے کے قریب ہم سمر نالہ پہنچ گئے، جہاں واقعتا دیگر ہوٹلوں سے اچھا کھانا ملتا ہے۔ دریا کنارے شاہراہ قراقرم پر واقع ہوٹل میں ہم سے قبل چائینیز خواتین اور انجینئرز کی بڑی تعداد موجود تھی اور ہوٹل کے عقبی سائیڈ سے دریا کے خوبصورت نظارے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ عادتاً سیلفی نکالنے کی کوشش پر ایک چائینیز نے بطور فوٹوگرافر فوٹو کھینچنے کی آفر کردی جسے وہی پر ٹھکرادی کہ تصویر نکالنے کے لئے اب کسی کے محتاجی کی ضرورت نہیں ہے۔

شام قریب آتے ہی ہم داسو کے حدود میں داخل ہوگئے تھے۔ داسو کی چھوٹی سی بازار کراس کرنے کے بعد اندھیروں کا راج شروع ہوگیا۔ داسو سے ہماری گاڑی گزررہی ہے، ڈرائیور کو غالباً گھر سے کال آگئی اور وہ پھر کسی مقامی زبان میں بات چیت میں مصروف ہوگیا، اسی اثناء ہمارے مخالف سمت سے آنے والے ایک موٹرسائیکل سوار نے اپنی موٹر روک کر زور سے ہارن بجانا شروع کردیا، ڈرائیور کا دیہان اس جانب نہیں تھا، فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صاحب کی نشاندہی پر متوجہ ہوئے اور گاڑی روک دی، چند سیکنڈز ہی گزرے ہوں گے پہاڑ سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی، اگر ڈرائیور کا دیہان بھٹکا رہتا تو خدا جانے کیا ہونا تھا۔ یوں بھی شاہراہ قراقرم کا رائیکوٹ برج سے داسو اختتام تک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، راستے میں مسافروں کے لئے بھی کسی قسم کی سہولت نہیں ہے، اور اکثر مسافر ہوٹلوں کے ہاتھوں لٹ کر منزل پہنچ جاتے ہیں۔

وادی سوات کے لئے یہ میرا پہلا سفر تھا، ذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے تھے جو سوات اور کالام کے مناظر کی وجہ سے ذہن سے چھٹ گئے ہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا۔ سوات کو کبھی دیکھا نہیں تھا اس لئے صرف خیالات تھے تاہم اس بات کا خدشہ تھا کہ کسی بھی قسم کی تاخیر سے کانفرنس چھوٹ جائے گی۔ شام کا وقت سوار تے ہی ایک گاڑی پر مشتمل پانچ سواروں کا قافلہ بشام سے دائیں جانب مڑ گیا۔ یہاں سے آگے کا سفر بالکل نیا تھا چند اہم مقامات کے علاوہ کسی بھی نئی شے کا نام تک ذہن نشین نہیں ہوسکا۔

میں نے جب ڈرائیور سے معلومات لی تو انہوں نے بتایا کہ سوات سے کالام تک کم از کم چار گھنٹے لگتے ہیں۔ اور اس کا کرایہ کم از کم گلگت تا سوات سے دوگنا ہوگا کیونکہ کوئی اور سواری ملنے کا امکان نہیں ہے، کالام میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے لئے میزبان جناب زبیر توروالی کی طرف سے گرین سگنل موصول ہوا، تاہم مزید علاقائی معلومات کے لئے سوات کے دوست زیشان صاحب لمحہ بلمحہ ساتھ تھے اور گائیڈ کیے جارہے تھے، ان کی بھرپور اصرار کے باوجود میں ان کے پاس نہیں ٹھہر سکا۔

سوات خوازہ خیلہ میں دیگر دو مسافروں کو اتارنے کے بعد میں اور ڈرائیور کالام کی طرف روانہ ہوگئے۔ خوازہ خیلہ بازار نہایت کشادہ اوروسیع بازار ہے، گوکہ اندھیرے کی وجہ سے روشنیوں سے محروم رہے تاہم دکانوں کے بورڈز بتارہے تھے کہ ہنستا بستا شہر اور بازار ہے۔ سوات شہر تک گلگت سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بلاروک ٹوک چلی جاتی ہے۔ یہ علاقہ مالاکنڈ ڈویژن میں شامل ہوتا ہے جو چترال سے مینگورہ اور بشام تک پھیلا ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوات کے بالائی علاقوں میں رہائش پذیر تقریباً سبھی افراد بیک وقت متعدد زبانیں بول سکتے ہیں، یوں بھی یہ علاقہ کثیر اللسانی علاقہ ہے۔ رات ایک بجے کے قریب سوات کے علاقہ بحرین سے گزررہے تھے تو ڈرائیور نے بتایا کہ 2010 میں یہاں سیلاب آیا تھا جس کے بعد ابھی تک مکمل بحالی نہیں ہوسکی ہے۔ بحرین، مدین اور کالام و دیگر جگہوں میں تقریباً دس سال قبل سیلاب کے واضح اثرات موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں کا انفراسٹرکچر شدید متاثر ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور لوگوں کو آمد و رفت کے مسائل درپیش ہیں۔

رات گہری ہوتی جارہی تھی اور ڈرائیور جمائیوں پہ جمائیاں لیتے جارہے ہیں، تھکاوٹ عروج پر تھی اور خطرہ سر پر تھا لیکن ڈرائیور مطمئن تھا، جس سے اندازہ ہوا کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔ رات دو بجے کے قریب ایک سائن بورڈ نظر آیا جہاں پر ریلیکس کاٹیج ہوٹل کا نام بھی لکھا ہوا ہے اور کل ڈیڑھ منٹ کا فاصلہ بتایا گیا، تھوڑی دیر میں ہم کالام کے جنگل کے سامنے ہوٹل پہنچ گئے جہاں پر ’تکثیریت کا مکالمہ‘ سیمینار کے لئے انتظامات نظر آرہے تھے۔

ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے میزبان اس وقت تک ہوٹل میں مہمانوں کو ویلکم کرنے کے لئے موجود تھے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد مجھے آرام کے لئے کمرہ دکھایا گیا جہاں پر چترال سے کھوار زبان کی نمائندگی کرنے والے جنگی بہادر خان پہلے سے آدھی نیند میں تھے چونکہ سفر طویل تھا اور تھکاوٹ بہت رہی اس لئے گھوڑے بیچ ڈالے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).