خواب اور نومبر


نبیلہ اپنا سردونوں بازوؤں میں ٹکا کر چھت پربیٹھی تھی شام کے وقت گھر کو لوٹتے پرندے۔ سورج کے غروب ہونے کے منظر۔ ہر بار اس کی آنکھوں میں جمی اداسی کو مزید گہرا کر کے اس کے جسم میں اتار دیتا تھا وہ بھی تو اس سورج کی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ غروب ہو رہی تھی اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور نیچے اتر گئی

نبیلہ جو کبھی رنگوں سے بھرپور شوخ حسینہ کے طور پر جانی جاتی تھی اس کی آنکھیں معصومیت سے لبریز تھیں۔ ۔ اس کے گلابی ہونٹ مخالف جنس کو اس کی طرف دوسری نگاہ ڈالنے پر مجبور کردیتے تھے۔ اس کی سانولی رنگت میں بے پناہ کشش تھی جو دیکھنے والے کو اس کے سحر میں جکڑنے کی قوت رکھتی تھی۔ اس کی ہنسی اس کے ہونٹوں سے زیادہ آنکھوں سے چھلکتی تھی۔ اس کی انگلیاں ہر وقت گہری مہندی سے رچی رہتیں مگر اس کا باقی جسم کڑھائی والی ایک کالی چادر کے نیچے ہمیشہ چھپا رہتا جو دیکھنے والے ہر مرد کو مزید تجسس میں مبتلا کردیتا

بظاہر قہقہے بکھیرتی رنگوں سے بھرپور نبیلہ اپنے اندر نہ جانے کیسے کالے غم چھپا کر بیٹھی تھی کبھی کبھی وہ سوچتی کہ اس کی کالی چادر نے اس کے خوابوں اور دل کا رنگ بھی کالا کر دیا ہے

نومبر کا مہینہ پھر سے اپنے جوبن کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا مگر یہ نومبر اور اس کا ہمیشہ خدا واسطے کا بیر ہی رہا تھا نومبر سے منسلک یادیں کسی آسیب کی طرح اس کو چمٹ کر دیوانگی کی کیفیت میں ڈال دیتی تھیں وہ اکثر سوچتی کے ہر محبت کرنے والے دل کی یادیں تو نومبر سے خوشیوں، وعدوں اور وصال کے پرمسرت لمحوں میں دی جانے والی قسموں کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں نہ جانے اس میں ایسی کیا خامی تھی کہ یہ مہینہ اس پہ کبھی مہربان نہ ہو سکا یہ ایک دکھوں سے چور بے بس مہینے کی طرح کیوں ہر سال اس کے وجود میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا

اس مہینے کی آمد کے ساتھ سب سے پہلے اس کے ذہن میں اپنے شوہر کا چہرہ آتا وہ اس کے خوابوں کا شہزادہ تھا دل میں چھپے تمام اندیشے سالوں سے افسردگیوں کی بھیانک شکل اختیار کر چکے تھے اپنی نوجوانی میں بنے گئے تمام حسین خوابوں کے ساتھ وہ اس منحوس مہینے اس کی زندگی میں شامل ہوئی تھی

سارے دن کی تھکاوٹ کو بستر میں ڈالتے ڈالتے دن مہینوں اور سالوں میں ڈھلنا شروع ہو گئے وقت کے ساتھ حسن اور جوانی بھی اپنی اختتامی مراحل میں داخل ہوچکے تھے جو بچ گیا تو بس تنہائیوں اور خوابوں کا ساتھ

ہر بار کسی بچے کے رونے پر نیند سے بیدار ہوتا تھکا ہارا وجود خود سے سوال کرتا کہ کیا وہ اس قابل بھی تھی کہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکتی سب کو خوش کرتے کرتے اس کی اپنی روح ذمہ داریوں کی تھکن سے چور ہو چکی تھی جلدبازی خوابوں سے محبت کی انتہا ہی تو تھی کیا کوئی خود سے زیادہ خوابوں سے اتنی محبت کر سکتا ہے اس نے خود کو ان عذابوں میں ڈال کر اس کا مزہ چکھ لیا تھا

اپنے وجود کو سراہے جانے کی خواہش نے چور دروازوں کی تلاش شروع کردی جسم و روح پر لگے جالوں کو صاف کرنے اور حسین خوابوں کو دیمک سے بچانے کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز کردیا گیا تھا

نومبر! ہاں وہ نومبر ہی تو تھا جو گناہوں کی دلدل میں قدم رکھنے کے لیے ایک مضبوط سہارا بن گیا وہ اور ان گناہوں میں اس قدر لزت تھی کہ نبیلہ چاہنے کے باوجود بھی ایک قدم پیچھے نہ ہٹ سکی وہ جتنا ان عذابوں سے نکلنا چاہتی اتنا ہی اندر دھنستی جاتی خوابوں کی تکمیل کے مرحلات شروع ہو چکے تھے وہ نادان لڑکی سب کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتی تھی کہ ہاں خوابوں کی تکمیل ممکن ہے وہ اپنے پر ہنسنے والے ہر چہرے کا منہ نوچ لینا چاہتی تھی خوابوں کی تعبیراس کے سامنے موجود تھی دل سے دیکھے جانے والے خوابوں کو ایک دن ضرورمنزل مل جاتی ہے وہ نشے کی سی کیفیت میں تھی

خوابوں کے سراب کے پیچھے بھاگنے والی دیوانی اپنی سدھ بدھ سے بیگانی ہوگئی تھی وہ بھول گئی تھی کہ ان کی تکمیل کے لئے چنا جانے والا راستہ مذہب اور معاشرے کے منافی ہے اس کی دیوانگی نے مخالف جنس میں چھپی حرص کو مکمل نظر انداز کردیا تھا وہ نبیلہ کے خوابوں کی تکمیل نہیں اپنے نفس کی تسکین کے لئے اس کھیل میں دلچسپی دکھا رہا تھا

اس کی طرف سے دیے گئے ہر غلیظ طعنے اور ذلت کو اپنی مسکراہٹوں کے نیچے چھپانے والی یہ بات تو مان ہی گئی تھی کہ خوابوں کی تکمیل کے لیے انا کا جنازہ پڑھانا ہی پڑھتا ہے ہر محبت کو زوال ہے اور پھر اس مرد کی جھوٹی محبت کی حقیقت اس کے سامنے کھلنے لگ گئی

وہ اکثر سوچتی رہتی کہ نجانے کیوں اس کی اتنی شدید محبت اس مرد کے دل میں اس کی محبت کی لو نہ جلا سکی اتنی محبت تو کسی بے جان چیز میں بھی زندگی پیدا کر دیتی لیکن محبت میں پاکیزگی شرط ہے۔ دلوں اور روحوں کی پاکی کے بغیر کوئی کیسے اتنے بڑے دعوے کر سکتا ہے اس بیوقوف نے پھر اپنے خوابوں کی وجہ سے شکست کھائی تھی نبیل جسے وہ اپنی روح کا ساتھی سمجھتی تھی کبھی نہ واپس آنے کے لیے اس کو چھوڑ کے جا چکا تھا اس کا عشق، تڑپ اور دیوانگی کچھ بھی تواس پتھر دل مردکو واپس نہ لا سکے تھے

ہائے نومبر! تم ایک بار پھر رسوائیوں تنہائیوں کا مہینہ بن گئے جھوٹی محبت میں کھائی جانے والی قسمیں اس مہینے کو اور بھی زیادہ اذیت ناک بنانے لگیں

کاش وہ دل کے تہہ خانوں میں سانسیں روکے اپنے خوابوں کے افسردہ حالت پر کبھی غور کر پائے جو روح پر لگے زخموں کو دیکھ کر غم سے چور ہیں وہ خواب اس کی نظروں کی تاب نہیں لا سکتے اسی لیے تو انہوں نے اس لڑکی کی خوشی کے لئے خود تنہائی کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے

نبیلہ کی ذات اور اس کے خوابوں کے درمیان آنکھ مچولی کا ایک لامتناہی کھیل جاری ہے وہ اس لڑکی سے شرمندہ ہے نبیلہ ان سے چھپتی پھرتی ہے نہ جانے کب ہوں دوبارہ اسے اپنا ساتھ سونپیں گے اس کا فیصلہ زندگی کے اگلے سالوں میں آنے والا نومبر ہی کرے گا۔ مگر ہائے یہ وحشی نومبر اور موت کی متلاشی اداس آنکھوں والی لڑکی کے معصوم خواب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).