ارے او موٹی


موٹی، بھینس، بم، آلو، اف کیسے چلتی ہوگی؟ کون اس گوشت کی دکان سے شادی کرئے گا؟ اے موٹی اپنا وزن تو کم کر، اچھا بتاؤ تم سے بس والا ایک بندی کا کرایہ لیتا ہے یا ڈبل؟ پھر اس سوال کے بعد ایک لمبی سی بے تکی ہنسی۔

یہ وہ فقرے ہیں جو موٹاپے کا شکار لڑکی ہر روز سنتی اور برداشت کرتی ہے۔

دراصل میں بذات خود موٹاپے کی شکار ہوں اور مذکورہ بالا جملوں کو معمول کے مطابق سنتی ہوں۔

مردانہ معاشرے کی روایات کے مطابق مرد چاہے جیسا بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مرد کی جسامت یا رنگ نہیں بلکہ اس کی کمائی پوچھی جاتی ہے مگر عورت کی مکمل ناپ تول کی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ہے لڑکی اگر موٹی ہے تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بیاہ رچائے۔ شادی کرنا تو دور کی بات اس بابت سوچنے تک کا، اسے کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ موٹی ہے پھر ہمارے یہاں یہ سوچ پختہ ہوچکی ہے کہ موٹی لڑکیوں سے کون شادی کرتا ہے۔

ایک موٹی لڑکی اگر کسی ہم عمر کزن کی شادی میں بن سنور کر تقریب انجوائے کرنے کی غرض چلی جاتی ہے تو خاندان والیاں اسے یہ کہہ کہہ کر رونے پر مجبور کر دیتی ہیں ہائے بیچاری ایسے ہی خوش ہوسکتی ہے یہ اپنے گھر کی تو ہو ہی نہیں سکتی، موٹی جو ہے۔ بھلا اس کے ساتھ کون گھر بسائیگا، یہ دوسروں کی شادی میں ہی خوش ہوسکتی ہے۔

بات شادی پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی فربہہ مائل لڑکی اپنے بہتر گزر بسر کے لئے کہیں نوکری کی تلاش میں قسمت آزمائی کے لئے نکلتی ہے تو اسے یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے بھئی اس سے نہ ہوپائیگا یہ تو موٹی ہے اور اگر نصیب سے نوکری مل بھی جاتی ہے تو ورک پلیس پر اسے اس کے نام سے نہیں بلکہ او موٹی یا موٹو کہہ کر بلایا جاتا ہے۔

دوران کام کوئی غلطی ہوجائے تو کہا جاتا ہے موٹی کے جسم میں ہی نہیں بلکہ دماغ میں بھی چربی چڑھ چکی ہے۔ ایک موٹی لڑکی ہونے کے ناتے میں دوران جاب کھانا کھانے سے گریز کیا کرتی تھی کیوں جیسے ہی کبھی کینٹن کا رخ کیا تو کوئی نہ کوئی یہ جملہ ضرور کہتا لو جی آج تو ہمیں کھانے کو نہیں ملے گا، یا سب کھانا موٹو کھا جائے گی یا پھر بس بس موٹی کتنا کھائے گی حال دیکھا ہے اپنا۔ مجھے یاد ہے 2013 میں جب میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا تھا تو کراچی میں راج کرنے والی جماعت کے الیکٹرانک میڈیا کے کورڈینٹر نے اپنے میڈیائی دوست سے کہا تھا یہ موٹی چائے بسکٹ اور لنچ باکس کے لئے ہماری پریس کانفرنس میں آتی ہے۔

موٹی خواتین کو لے کر اور میڈیا کی سوچ کو مدنظر رکھ کر میں یہ بھی کہنا چاہونگی کہ اس سلسلے میں ہمارا میڈیا بہت ہی فرسودہ رول پلے کررہا ہے۔ یہاں چھبیس، چھتیس اور 38 کی اکائیوں کا غل اور اس کی نمائش کی چاہ ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ہر لحاظ سے کاپی کرنے والے نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا میڈیا جسامت کو نہیں بلکہ ٹیلنٹ کو اسکرین دیتا ہے۔

اتنا ہی کافی نہیں بلکہ ہمارے یہاں موٹی لڑکی کو جینز پہنا دیکھ کر عجیب ہی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسی شکلیں بنائی جاتی ہیں جسے وہ اس دنیا کی مخلوق ہی نہیں ہے۔

موٹے افراد بالخصوص موٹی خواتین کی تضخیک کرنا تو ہمارے معاشرے کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

ہمارے یہاں دوران سفر، راہ گزر پر، محافل میں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں یا دفاتر میں موٹاپے کے شکار مرد وزن کو ہدف تفریح بنانا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ موٹے شخص کو بھوک نہیں لگتی کیونکہ اسے کھاتا دیکھ کر خوب مذاق اڑایا جاتا ہے یا پھر کسی بھی تقریب میں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ پورا کھانا تو یہ موٹی یا موٹا ہی کھا جائے گی/ جائے گا۔

اب اسے آپ مزے کی بات کہیں یا معاشرے کی ستم ظریفی کہ جس فربے مائل کا مذاق اڑایا جارہا ہوتا ہے وہ شرمندگی کو چھپانے کے لئے خود بھی زور زور سے ہنس رہا ہوتا ہے اور اپنے تئیس سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے کہ کیا میں مجرم ہوں؟ ہاں ٹھیک ہے میں اسمارٹ نہیں ہوں، میرا جسم بھاری ہے تو کیا میں مجرم ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).