بدھا کی ہم راہی میں نروان کے وہ پل


جاڑے کی رُت گزرنے کو تھی۔ ٹنڈ منڈ درختوں کی شاخوں سے پھوٹتی کونپلیں بہار کی نوید دے رہی تھیں۔ موسم میں ایک خوش گوار سی خنکی تھی اور نیلگوں آسمان پر کہیں کہیں سفید روئی کے گالوں سے بادل بکھرے پڑے تھے۔ گاڑی موٹر وے پر دوڑ رہی تھی۔ باہر کا وہ منظر کسی حسین خواب کی طرح کا تھا۔ چہارسو پھیلی پیلی دھوپ نے کچھ ایسا سماں باندھ دیا تھا، کہ میں اپنا سر سیٹ کے ساتھ ٹکا کے گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانکتی چلی گئی۔ ایسے مد ہوش ماحول میں من میں یہ خواہش مچلنے لگی، کہ اے کاش یہ درشن میری نظروں میں بسا رہے، یہ سمے تھم جائے۔ گاڑی کی منزل تخت بھائی کے آثار قدیمہ تھے۔

میں دیکھنے چلی تھی، کہ وہ بستی کیا ہوئی، جو سال ہا سال سے آباد تھی۔ اور پھر خدا جانے کب، کیوں، اور کیسے، نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ اور پھر نہ جانے کب، کیوں، اور کیسے، کوئی روز دوبارہ آشکار ہو گئی۔

پتھریلی مضبوط عمارت، سرمنڈھائے، لمبے چوغے پہنے انسان نما ہیولے۔ میری نگاہ میں ایک ملگجا سا تماشا تھا۔ وہ سب بڑا پراسرار تھا۔ یک لخت منظر بدلا۔ گاڑی موٹروے پر تھی۔ تخت بھائی جاتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی تھی، یا پھر جاگتی آنکھوں کا وہم تھا، کون جانے!

رشکئی انٹر چینج سے اُترے، مردان کے گنجان علاقے سے گزر کر سرسبز کھیتوں کو پار کرتے آگے بڑھے، تو پاس ہی چپلی کباب کے بورڈ دکھائی دیے۔ تخت بھائی کے بازار سے گزر کے دائیں جانب ایک راستہ مڑتا ہے، سڑک کنارے ’بدھ مت کے کھنڈرات‘ کا بورڈ نصب تھا۔ مین روڈ سے اترے تو اک شکستہ راہ گزر نے استقبال کیا۔ عقبی آئینے میں پہاڑ دکھائی دیے۔ گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ ایک کے بعد ایک، کئی موڑ آئے اور ہم ایسی جگہ پہنچے، جہاں تینوں اطراف پہاڑ تھے۔

تخت بہائی (تخت بھائی)  کا نام ان کھنڈرات کی وجہ سے پڑا۔ ’’تخت بہائی‘‘ کے دو تین معنی بتائے جاتے ہیں۔ سنس کرت میں ’تخت‘ کا مطلب ’کنویں‘ کا ہے، اور ’بہائی‘ کا مطلب ہے ’بلندی‘۔ فارسی میں ’تخت‘ کا مطلب اردو کا تخت ہی نکلتا ہے، جب کہ کچھ لوگ ’تخت‘ کو ’چشمہ‘ کے معنی میں بھی لیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے یہ بدھ مت کی اس عظیم درس گاہ کے آثار ہیں، جو پہلی صدی قبل مسیح میں بنائی گئی تھی۔ 1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ یہ سطح زمین سے ڈیڑھ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بدھ حکمران کنشک نے اسے تعمیر کروایا تھا۔ 1833 میں کچھ مزدوروں کو یہاں مٹی کھودتے ہوئے جب قدیمی سکے اور مورتیاں ملیں تو انگریز سرکار حرکت میں آئی۔ سب سے پہلے ان آثار قدیمہ کا پتا، ایک فرانسیسی جنرل کورٹ نے لگایا، جو پنجاب کے حکمران مہا راجا رنجیت سنگھ کی فوج میں افسر تھا۔ پھر سر جان مارشل نامی نے اس حوالے سے خاصا کام کیا۔

گاڑی نسبتہََ ایک ہم وار رستے سے گزر کے، پہاڑ کے دامن میں پہنچی۔ ایک طرف کار پارکنگ، تو دوسری جانب باغیچہ ہے۔ پارکنگ لاٹ کے سامنے، سیڑھیاں اوپر پہاڑ کو جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ابتدائی چند سیڑھیوں تک صرف پہاڑ ہی نظر آتے ہیں، پھر کھنڈروں کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ غار نما کمرے، چبوترے، سٹوپے اور چھجے۔ میلے بھورے پتھروں سے بنی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں، جو وقت کے ہاتھوں کھنڈر ہوئیں۔

خاصی سیڑھیاں چڑھ کے دائیں مڑتے جونھی قدیم درس گاہ کی مرکزی راہ داری پر نظر پڑی، تو یوں لگا جیسے قرنوں سے سویا ہوا محل جاگ اٹھا ہو، کہ اُسے میری آمد ہی کا انتظار تھا۔ نروان کی تلاش میں، سب سنسار تیاگ کے، دھیان لگائے وہ بھکشو، جیسے پھر سے جی اُٹھے تھے۔ پس منظر میں پراسرار سی  موسیقی بجنے لگی، گیروے رنگ کی اوڑھنیوں میں ملبوس بھکشو پاٹھ کرنے لگے۔ مجھے ایک لمحے کو محسوس ہوا، کہ اگر ایسے میں میری آتما نے سرگوشی بھی کی، تو یہ طلسم ٹوٹ جائے گا۔ میں دبے قدموں درمیانی حجرے میں داخل ہوئی اور جونھی چبوترے کو چھوا، آن کی آن میں سارا منظر بدل گیا۔

چبوترے کے ہر چار طرف ایک راہ داری ہے، جس کے آخر میں پتھروں کی دل کش ترتیب  سے وہ حجرے بنے ہیں، جہاں کسی دور میں گوتم بدھ کی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہاں سے داہنے اور ہاسٹل کا احاطہ ہے۔ یہ عمارت سیکڑوں برس  پہلے دور دراز سے آنے والے نروان کے متلاشیوں کی سکونت گاہ رہی ہو گی۔ یہاں چھجے پر کھڑے ہو کے دیکھا، تو سامنے سرسبز وادی کا دل آویز نظارہ تھا۔ قدرت نے کینوس پر ہرے رنگ کا ہر شیڈ ایسے بکھیر رکھا تھا، جوں لاتعدار زمرد روشنی میں نہائے گئے ہوں۔ الف لیلہ کا کوہ قاف۔ جادو نگری کا طلسمی ماحول، جہاں پہنچ کے ماضی کو کھنگالتا کھنگالتا، کھوجی خود ماضی میں پہنچ جائے۔

انسانی ذہن کی رسائی اور ہنر مندی سے پہاڑوں کی تراش خراش مجھے  حیرت زدہ کر گئی۔اس دور میں جب تعمیراتی مشینوں کا تصور تک نہیں تھا بلند اور سنگ لاخ پہاڑوں میں اتنی عظیم الشان عمارتیں بنانا، منفرد اور حیران کن کارنامہ ہی ہو گا۔ یگوں پہلے یہاں کی چہل پہل، عبادت  کرتے بدھ بھکشو اور بدھ مت کی تعلیم کے لیے آنے والوں کی سرگرمیاں چشم تصور سے دکھائی دینے لگیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے کئی یگ پلک جھپکتے میں گزر گئے ہوں۔ میں سٹوپوں کی تنگ راہ داریوں سے گزرتی، جا بہ جا اُگی جھاڑیوں سے اپنا دامن بچاتی، بے اختیار اس راہ گزر پر چلنے لگی، جس پر قرنوں کی مسافت کی پڑی گرد اب جم چکی تھی۔ سامنے بلند پہاڑ پر بیٹھے بچے مقامی زبان میں شائد کوئی گیت گا رہے تھے۔ اس ماحول کو ان کی مدھر آواز نے اساطیری رنگ میں رنگ دیا۔ میں قریب ہی ایک پتھر پر بیٹھ گئی اور خود کو اس طلسم میں میں گم کر دیا۔

سرما کی نرم اور چمک دار دھوپ، میرے چہرے سے ٹکراتی فرحت بخش ہوا، پرندوں کی سریلی بولیاں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ سٹوپے، کمرے، در و دیوار جو صدیوں کا سفر طے کر چکے ہیں، کیسے کیسے بھید لیے ہوں گے۔ وہاں دیوار میں بنا طاقچہ، جہاں کسی پردیسی راہ رو نے اپنے پیارے کی یاد میں دیا روشن کیا ہو گا۔ اس دیے کی لو جانے کس دل میں ہو، پر طاقچے میں جلنے کے نشان باقی تھے۔ وہ بلند دیوار کی بنیاد میں چنا ہوا چمچماتا پتھر، ضرور کسی نے وہاں اپنے محبوب سے جدائی پر آنسو گرائے ہوں گے۔ پہاڑ کی چوٹی پر بنے کشادہ کمرے کا وہ دریچہ، وہاں بیٹھ کر کسی راہب  نے نشیب میں پھیلی  وادی کا نظارہ کرتے، بالیقین اپنے اس جیون کے بارے میں سوچا ہو گا، جسے وہ کہیں پیچھے چھوڑ آیا تھا۔

دور ملاکنڈ کے پہاڑیوں کی اوٹ میں سورج ڈوب چلا تھا۔ ایک کرخت آواز مجھے کو قاف سے وا پس کھینچ لائی۔ نیچے پہاڑ کے دامن میں کھڑا سپاہی چیخ چیخ کے یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا، کہ سیاحوں کے لیے مخصوص وقت ختم ہو چکا ہے اور سیاحوں کو لوٹ آنا چاہیے۔

وہ جگ چھوڑنے سے پہلے میں نے ایک ننھا سا پتھر اٹھا کے اپنے وینٹی بیگ میں رکھ لیا۔ پتھریلے راستے پر سست گامی سے میں نیچے اترنے لگی۔ ایسے میں بدھا میرے ساتھ  چلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).