دم سادھ، زمانہ کاٹ، بھلے دن آئیں گے


یہ 1996 کی تاریخ کے صفحوں کا بھیانک باب ہے۔ قاضی حیسن احمد بے نظیر بھٹو کے خلاف صف آراء ہونے والے تھے اور کمک کے لئے نواز شریف تیار تھے۔ ہم ان دنوں سکول کے بچے تھے لیکن یاد پڑ رہا ہے جماعت اسلامی کے نوجوان سر پر کفن باندھے نکل رہے تھے۔ ہمیں بھی بتایا جاتا کہ پاکستان کی حالت اب سنبھل جائے گی اگرچہ ہم حیران ہوتے کہ بھلا اب کون سی قیامت برپا ہے جو سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے۔ ہمارے لئے تو پی ٹی وی کے ڈرامے، کھیل اور کارٹون ہی ہمارے کل کائنات تھے لیکن آج جب شعور پر سمجھ بوجھ کی روشنیاں پڑ چکی ہیں تو بات پلے پڑی کہ واقعی ان دنوں پاکستان کی حالت دگرگوں تھی لیکن وجہ بھی سیاستدان ہی تھے کیونکہ بہاولپور حادثے کے بعد سیاستدانوں نے اقتدار کی غلام گردشوں ہی کو سیاست کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔

بہرحال قاضی حسین احمد نکل پڑے اور شہر اقتدار میں خیمہ زن ہوئے۔ قصہ کوتھاہ دھرنے کا بنیادی مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ تھا کرپشن تو ختم نہ ہوئی البتہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ضرور ختم ہوئی وہ اور بات ہے جس پر آج تک میں حیران ہوں کہ اگلے الیکشن میں جماعت اسلامی نے خود انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کیا۔ جماعت والے انتخابات میں حصّہ لیتے تو ہوسکتا ہے کرپشن کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کرلیتے۔ خیر دھرنوں میں تسلسل قاضی حسین احمد کے اس دھرنے کے بعد آیا جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی۔

آج تک مجھے خود اس سوال کا جوان نہیں ملا کہ کرپشن، جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی، میں دھرنے کے بعد بھی شدت کیوں آئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت کے بعد جب سیاسی کھلاڑی اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں تو پھر ان کے لئے وقت گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ قاضی حسین احمد نے تو خود شاید کوئی فائدہ نہیں بٹورا لیکن نواز شریف کو خوب فائدہ ملا اقتدار کی صورت میں بہرحال ایک بات کنفرم ہے کہ پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔

اس کے بعد ملک کو مفلوج کرنے میں دو اور مشہور دھرنے بھی شامل ہیں جو عمران خان اور طاہر القادری نے دیے تھے۔ تاریخ کا جبر دیکھیے انہی دو دھرنوں میں بھی حکومت وقت پر الزامات لگے اور وہی پرانا اور آزمودہ کار نسخہ آزمایا جانے لگا کہ حکومت مستعفی ہو کیونکہ اب یہ ان کی بس کی بات نہیں۔ حکومت تو مستعفی نہیں ہوئی البتہ پاکستان کی بھرپور جگ ہنسائی ہوئی۔ اس مختصر تاریخ کا مطالعہ جب بھی آئندہ نسلیں کریں گی دو سوال ضرور ان کو الجھائے رکھیں گے۔

پہلا، ان دھرنوں میں ہمیشہ حکومت کے خاتمے کی بات کیوں کی گئی۔ جن مسائل کا ذکر دھرنوں میں کیا جاتا ہے یہ اچانک آجاتے ہیں یا دھرنے سے پہلے حکومتوں میں موجود ہوتے ہیں۔

دوسرا، دھرنوں میں موجود کارکن جو ہمیشہ تپتی دھوپ کی تپش اور برستی بارشوں کی ٹھنڈک کے ساتھ قانون کی لاتیں اورجیلیں برداشت کرتے رہتے ہیں کیا ان کے حقیقی مسائل پر کبھی سنجیدہ بات ہوئی۔ جواب ان دونوں سوالوں کا نفی میں آئے گا۔

ماضی قریب میں عمران خان نے جس نئے انداز سیاست سے ملک و قوم کو روشناس کرایا سب کچھ دھرنوں ہی کی تو مرہون منت ہے۔ دھرنا ہوا، قبریں کھودی گئیں، سپریم کورٹ کی دیواروں پر میلے کچیلے کپڑے آویزاں کیے گئے لیکن سوال بس ایک ہی رہا جو شاید ہمیشہ ہی رہے کہ کیا ملک سے وہ مسائل ختم ہوئے جن کی وجہ سے آج تک ہم لے کر رہیں گے آزادی، تمہیں دینی ہوگی آزادی جیسے نعرے ہم اپنے ہی ملک میں لگا رہے ہیں۔

جتنے لوگ عمران خان کے لئے گھروں سے نکلے انہوں نے تکالیف اور صعوبتوں کا سامنا کیا لیکن آج رو رہے ہیں کہ جان کب چھوٹے گی مہنگائی سے، قرضوں سے اور بے روزگاری سے۔

موجودہ ملکی صورتحال یہ ہے کہ عوام ترس رہے ہیں زندگی کو اور ایسے میں بجائے اس کے کہ پوری سیاسی لیڈر شپ مل کر اس بھنور سے نکلنے کی کوشش کریں دوبارہ تاریخ دہرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں پلان اے کے تحت پشاور موڑ میں موجود رہے اب ان کی طرف سے پلان بی آیا ہے۔

حقائق دیکھنے میں بھلا کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔

2014 میں جب عمران خان کا دھرنا جاری تھا تو مولانا صاحب نے قومی اسمبلی میں تقریر کی تھی جس میں موصوف فرمارہے تھے کہ بات پارلیمینٹ کے ایک منتخب وزیراعظم کی ہے اسی کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم وزیراعظم رہیں گے ان کا استعفیٰ نہیں لیا جائے گا اور نہ وہ چھٹی پر جائیں گے بلکہ پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اب نئی نسل کے ساتھ بزرگ بھی حیران ہیں کہ یہ اچانک کیا ہوجاتا ہے کہ سیاستدان اپنا موقف بدل کر اپنے کارکنوں اور خود کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔

ایک سال بعد خود مولانا عمران خان کا استعفیٰ لینے نکل آئے جبکہ 2014 میں وہ میڈیا پر کھلے عام وہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے بارے میں یہی تاثر دیتے رہے کہ ایک سال ابھی نہیں گزرا ہے اور ان حالات میں اس قسم کی صورتحال پیدا کرنا ایک غیر جمہوری سوچ ہے۔ مولانا صاحب تو ایک بار انتہائی غصہ ہوئے تھے اور کہا تھا کہ اگر یوں ہی دھرنوں میں حالات خراب ہوتے رہے تو کل کوئی اور آجائے گا اور حکومت سے استعفیٰ مانگے گا ایسے میں پھر الیکشن کی تو کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

یہی وہ اصل بات ہے جو مولانا نے خود کہی تھی کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ ہم دھرنوں سے نکلیں گے تو ترقی کا سفر شروع ہوگا۔ دھرنوں سے کبھی بھی ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ آسان ہے بس سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ مولانا صاحب اب پلان بی کا اعلان کرچکے ہیں جس میں ملک کی اہم شاہراہیں بند کی جائے گی۔ سوال مگر آخر میں دوبارہ ذہن کے کونوں سے اچھل کر زبان ذد عام ہوجاتا ہے کہ کیا قاضی حسین احمد، عمران خان اور طاہر القادری نے دھرنوں سے ملک کو فائدہ پہنچایا تھا جو اب مولانا صاحب پہنچانے کی ضد کر بیٹھے ہیں

کنٹینر کے اوپر سے نجات دہندہ صدا لگاتا ہے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرشب اور نیچے سالہاسال سے صعوبتیں برداشت کرنے والے کبھی زندہ باد اورکبھی تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ موسم کی شدت اور جسمانی تھکاوٹ سے دن رات چور چور ہوجاتے ہیں اورنجات دہندہ کنٹینر کے اندر کچھ دیر سستا کر گھر کی راہ لے لیتا ہے۔

ایسا 2014 میں بھی ہوا تھا اور اب بھی ہورہا ہے۔

اور ہم جیسوں کی تکلیف ملاحظہ ہو۔

ہم ہر لمحہ خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں جو سوچتے ہیں حالات سدھر جائیں گے سکون بسیرا کرلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).