”مہنگائی بم“ کے پوشیدہ ٹکڑے


بلا شبہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مہنگائی بڑھی ہے۔ آئی ایم ایف کے شرائط کہیں، سابقہ حکمرانوں کے سیاہ اعمال بتائیں یا پھر موجودہ حکومت کی نا اہلی کی باتیں کی جائیں، بہرحال مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ہے۔

مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ تاجروں اور میڈیا کا مجرم کردار بھی ہے۔ جیسے ہی میڈیا پر مہنگائی کی خبریں چلتی ہیں تو اسی میڈیائی اسٹریم کا فائدہ اٹھا کر چور کمپنیاں، موقع پرست تاجر اور رہزن مڈل مین وغیرہ بغیر کسی توازن اور مہنگائی اصول کے اشیاء کے دام بڑہا دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی خریداری کرنا، ضروریات زندگی کے لئے مجبوری ہے۔

پئٹرول کی قیمت جیسے ہی بژہتی ہے یا ڈالر اونچی اڑان بھرتا ہے، تو میڈیا کے ماہرین ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے کی خوفناک پیشنگوئیان شروع کر دیتے ہیں، چنانچہ رائے عامہ کی ایک لہر سی اٹھتی ہے، جس میں مارکیٹ کے تمام قوائد و ضوابط معدوم پڑنے لگتے ہیں۔ جو جیسا چاہے ویسا دام مقرر کر لیتا ہے۔

اگرچہ کسی بھی پراڈکٹ کی قیمت لاگت، طلب اور رسد سے مشروط ہوتی ہے مگر اپنے ہاں ذخیرہ اندوزی سے ناجائز منافعہ خوری تک مارکیٹنگ کا کوئی اصول لاگو نہیں ہوتا۔ لہاذا حقائق سے زیادہ پروپیگنڈہ اثر انداز ہوتی ہے۔

پنجاب میں آٹا فی چالیس کے جی 1700 اور سندھ میں 2200 کیوں فروخت ہو رہا ہے؟ یہ کس قسم کی مہنگائی ہے؟ سندھ حکومت شاید ایک تیر سے دو شکار کر رہی ہے۔ اک یہ کہ عمران خان کی جانب جارہے مہنگائی الزام کا فائدہ اٹھا کر مخصوص اشیاء کے دام بڑھائے جائیں اور مستفیض کمپنیز اور افراد سے کمیشن لیا جائے، نیز عوام میں عمران خان حکومت کے خلاف بیزاری اور نفرت کو بھی ہوا دی جائے۔

اوگرا آئے دن پئٹرولیئم نرخوں میں ردوبدل کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ جس سے مہنگائی بڑھتی تو ہے مگر کم نہیں ہوتی! چنانچہ جتنا ممکن ہو سکے، ردوبدل کے دورانیے کو طویل کیا جائے یا کم قیمت اطلاق کے بجائے ڈفرنس رقم بیرونی قرضے میں دی جائے۔

کیونکہ پئٹرولیئم قیمت میں اضافے کے تناسب سے دوگنی مہنگائی تو بڑہتی ہے اور مہنگائی کے خوب چرچے بھی ہوتے ہیں مگر عام مارکیٹ میں ’قیمت کمی‘ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لہاذا متعلقہ ماہرین کو ان سادہ اصولوں اور عام حقائق کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).