کرتار پور راہداری اور مستقبل کا پاکستان


جب سے کرتار پور راہداری کو سکھ یاتریوں کے لئے کھولا گیا ہے اس وقت سے لے کر آج چار دن بعد تک بابا گرونانک کے 550 ویں عرس کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سکھ پاکستان میں تشریف لا چکے ہیں اور آج بھی آ رہے ہیں۔ آج پاکستان کا امن پسند چہرہ دنیا بھر کے سامنے ہے۔ سکھوں کا ولولہ قابل دید ہے۔ ایسا جوش و خروش دیکھنے میں آیا جو پہلے کبھی نہ تھا۔ ایک اہم سنگ میل عبور ہوا۔ حکومت اور ایف ڈبلیو او کی انتھک محنت سے بالآخر دس ماہ میں وسیع و عریض مزار کی تزین و آرائش کا کام مکمل ہوا جو کہ قابل ستائش ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ محتلف مذاہب کے لوگ پاکستان کے طول و عرض میں رہائش پذیر ہیں۔ تاریخ میں دیگر مذاہب کی طرح سکھ مذہب بھی اپنی پہچان رکھتا ہے۔ تقریباً چودہ کروڑ سکھ دنیا کے طول و عرض میں مقیم ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو (اگر مکھی پنجابی) 1469 ء کو پاکستان کے شہر کرتارپور میں پیدا ہوئے اور 1539 ء کو وفات پائی۔ ان کا عرس اکتوبر۔ نومبر میں پورے چاند کے دن یعنی کاتک کی پورن ماشی کو منایا جاتا ہے۔

گرو نانک دیو کی تعلیمات کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق ان کے اپنے سکھ مذہب کی تعلیمات ہیں جو بابا گرونانک نے سکھاٰئیں۔ اور دوسرے نظریہ میں ان کے نزدیک کسی خدا یا نبی کا کوئی تصور نہیں وہ ان تعلیمات کو بابا جی کی روش قرار دیتے ہیں۔

کرتارپور پاکستان کا ایک علاقہ ہے جو نارووال میں واقع ہے۔ بابا گرونانک کا مزار اسی کرتارپور میں واقع ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی کشیدہ صورتحال اور بار بار سفارتی پابندیوں کے پیش نظر ہر سال سکھ برادری کوعرس میں شامل ہونے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ مذہب کے کروڑوں پیروکار اسی کرتارپورکو اپنا مکہ اور مدینہ مانتے ہیں اور ہرسال عرس میں شامل ہونے کے لیے انڈیا سمیت دنیا بھر سے پاکستان آتے ہیں۔

کرتار پور راہداری پاکستان کی طرف سے سکھ برادری کے لیے ایک انمول تحفہ ہے جو بابا جی گرونانک کے 550 ویں جنم دن پر سکھ یاتریوں کو پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت باہمی محبت اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان 1947 ء کے بعد جو تعلقات خراب ہوگئے تھے ان کی بحالی میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی جس کا سکھوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان اور سکھ برادری کے تعلقات نئے سرے سے پروان چڑھیں گے۔

سکھ برادری پاکستان کو اپنا مکہ اور مدینہ تصور کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک دیو جی کا مزار ان کے لیے اس قدراہمیت کا حامل ہے جس قدر مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ ہے۔ بلاشبہ کرتار پور راہداری کے منصوبے نے سکھوں کے دل جیت لیے گئے ہیں۔ آج اگر آپ کرتار پور جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ تمام سکھ برادری کی خوشی دیدنی ہے اور ان کے جذبات اور احساسات کا اندازہ ان کے رویوں اور بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت نوجوت سدھو کی وہ تقریر ہے جو اس نے افتتاحی تقریب پر کی۔ صرف پاکستان ہی نہیں ہندوستان نے بھی اس سلسلے میں ساتھ دیا جس سے یہ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا۔

بھارتی پنجاب کے سکھ وزراء کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے مذہبی، معاشی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ ملے گا۔ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں سکھ یاتری ہر سال پاکستان آئیں گے، ایک یاتری کی فیس صرف بیس ڈالر رکھی گئی ہے اور روزانہ پانچ ہزار سکھ یاتری پاکستان آئیں گے یعنی ہر سال خاطرخواہ رقم ریونیو کی صورت میں پاکستان میں آئے گی۔ اس طرح معیشت پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے معاشی، معاشرتی اور مذہبی رواداری کو فروغ ملے گا۔ دوسرے ملکوں میں مقیم سکھ یاتری پاکستان آ ئیں گے تو دنیا بھر میں پاکستان کے لئے امن پسندی کا تاثر ابھرے گا جو پاکستان کے سفارتی محاذ پر تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہو گا۔ لوگ باہر سے آئیں گے تو انھیں اندازہ ہوگا کہ حقائق کیا ہیں، پاکستان کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور ہم کیا سمجھتے رہے۔ شنید ہے کہ حکومتی سطح پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جائے گی۔ اس ڈاکومنٹری میں پنجاب کی ثقافت، مسلمانوں کے سکھوں کے ساتھ رویے، پاکستان کا امن پسندی دکھائی جائے گی۔ یعنی پاکستان کا حقیقی اور امن پسند چہرہ سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ راہداری پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کا وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے آگے چل کر یہ خطہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اس راہداری کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں سکھ برادری کے لوگ اپنے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک جی کے دربار پر حاضری دیں گے اور مذہبی رسومات آزادی سے ادا کریں گے۔ جس طرح ہمارے لئے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ محترم ہیں اسی طرح سے کرتارپور یا بابا گرونانک کا دربار بھی سکھ برادری کے لئے بہت ہی مقدس اور احترام کی جگہ ہے۔

اگر پاکستان سکھ برادری کے لیے اتنی کوشش کر رہا ہے تو بدلے میں سکھ برادری بھی پاکستان کے لیے اپنی محبتیں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سکھوں نے بھی پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اپنی مقدور بھر کوششوں کی پیش کش بھی کی ہے۔ اس راہداری سے اس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی کیفیت کو بھی کسی حد تک کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ہمارے پاس ایک بہترین آپشن ہے کہ پاکستان کے اندر ہم ٹورازم کو فروغ دیں اور اپنے ملک کے اندر ایسے تفریحی مقامات اور ایسے سیاحت کے پروگرام متعارف کروائیں جس سے سیر و سیاحت کی غرض سے دنیا بھر سے لوگ پاکستان میں آئیں۔

کرتار پور راہداری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ راہداری ٹورازم کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو گی۔ ویسے تو سکھ برادری دنیا کے طول و عرض میں مقیم ہے لیکن بھارتی پنجاب ہی ان کا مرکز ہے۔ دنیا بھر میں مقیم اکثر سکھ بھارتی پنجاب کے راستے ہی پاکستان آیا کریں گے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے باوجود کرتار پور راہداری کھولنے میں پہل کی۔ سکھ برادری اس راہداری کو پاکستان کا ان کے اوپر بہت بڑا احسان سمجھتی ہے۔ دنیا بھر میں مقیم چودہ کروڑ سکھ پاکستان کی آواز بنیں گے۔ یہ پاکستان کا امن پسند چہرہ سامنے لائیں گے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).