بابری مسجد کا فیصلہ


بابری مسجد (یا میر باقی مسجد) جو مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے، بھارتی ریاست اترپردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے اسے مغل سالار میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔ بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی کے ذریعہ سن 1528 ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی برطانوی راج نے بابر کی جانب سے دی گئی امداد کو منظور کر لیا تھا جس کے بعد اس امداد کا سلسلہ نوابوں کی جانب سے جاری رہا۔

بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا مؤقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے۔ اس طرح 40 سال سے زائد عرصے تک یہ مسجد متنازع رہی۔ 6 دسمبر 1992 ء کو ان عناصر نے مسجد کو مسمار کر دیا۔ جس کے بعد بھارت میں اپنی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ بابری مسجد کو گرانے میں نہ صرف کارکنان بلکہ عمارت گرانے والے پیشہ ور افراد بھی شامل تھے۔

تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 ءکو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ چھ دسمبر سنہ 1992 کو متنازع بابری مسجد کے گرائے جانے کے بعد دو فوجداری مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ایک مقدمہ کئی نامعلوم رضاکاروں کے خلاف تھا اور دوسرا بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی سمیت آٹھ بڑے ہندو رہنماؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔

اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں رام کے بت مسجد میں رکھ دیے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔

6 دسمبر 1992 واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو برخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اور پھر 1993 میں ایک صدارتی حکم کے تحت بابری مسجد کے ارد گرد زمین کا 67.7 ایکڑ رقبہ وفاقی حکومت نے اپنے اختیار میں لے لیا۔ بابری مسجد کی تباہی کی تحقیقات کرنے والے جسٹس لبرہان کمیشن نے 2009 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مسجد کو ایک گہری سازش کے تحت گرایا گیا۔

جس کے بعد لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت بہت سے افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بابری مسجد کے واقعے کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس میں بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے کئی رہنماؤں سمیت 68 افراد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کیس کی سماعت اب تک جاری ہے سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل دو ہندو ججوں نے کہا تھا کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اس مقام پر جو عمارت تعمیر کی تھی وہ مسجد نہیں تھی، کیوں کہ ایک مندر کے مقام پر مسجد کی تعمیر ’اسلام کے اصولوں کے خلاف‘ ہے۔

تاہم بینچ میں شامل مسلمان جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اس مقام پر کسی مندر کو نہیں گرایا گیا تھا، بلکہ مسجد کی تعمیر ایک کھنڈر پر ہوئی تھی۔ ہائی کورٹ نے 30 ستمبر 2010 ء کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایودھیا کی 2 اعشاریہ 7 ایکڑ زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک تہائی زمین رام لِلا مندر کے پاس جائے گی، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کو اور باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔

رواں سال کے شروع میں بھارت کی سپریم کورٹ میں 5 ججوں کے آئینی بنچ نے 6 اگست سے روزانہ اِس کیس کی سماعت شروع کی اور یہ روزانہ کی سماعت 40 دن کے بعد 16 اکتوبر کو ختم ہو گئی، بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019 ء کو مکمل کی تھی، کیس کا فیصلہ 9 نومبر کو سنایا گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا اور آخر آخرکار فیصلہ ہندوستان کے حق میں آیا۔

چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے اہم ترین اور 27 سال سے جای کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

جبکہ مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مسجد کی موجودگی کے حوالے سے تاریخ دانوں کے متنازع دلائل انتہائی کمزور ہیں اور ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین مندر کی تعمیر بی جے پی کے ایجنڈے کا اہم حصہ رہا حال ہی میں جب مندر بنانے کی شروعات کرنے کے نام پر وشو ہندو پریشد نے ایودھیہ میں ایک اجتماع کا انعقاد کیا تب کئی ہندتوا پرست رہنماؤں نے کھلے عام دھمکی دے ڈالی کہ ’اگر مندر بنانے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو وہ ایک اور 6 دسمبر کر ڈالیں گے‘ ۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 اور 2019 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ ایک طرف پاکستان نے سکھ برادری کا خیر مقدم کیا تو دوسری طرف مودی سرکار نے پھر اپنا رنگ دکھایا اور کشمیر کی طرح ایک بار پھر نفرت کی لکیر مسلمانوں کے سامنے کھینچ دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).