مذہب اور سائنس میں دوستی یا دشمنی کا تعلق نہیں


ڈاکٹر سہیل اور نادرہ مہر نواز کے خطوط کے تبادلے نے مجھے یہ مضمون لکھنے کی تحریک دی۔ جب میں‌ پاکستان میں‌ ہندوستان سے ہجرت کیے ہوئے گھرانے میں 1973 میں‌ پیدا ہوئی تو اس نئے ملک کی عمر 36 سال تھی۔ پاکستان کے لوگ، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کے ملبوسات، آرٹ اور کلچر وغیرہ شروع شروع میں‌ ہندوستان کی طرح‌ ہی ہوتے تھے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور آئین میں‌ مزید سے مزید تر اسلام شامل کرنے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے رشتہ دار مختلف ہوتے چلے گئے۔ ایک ہی خاندان کے لوگوں‌ کا رہنا سہنا، بات چیت اور زندگی کے فلسفے مختلف ہوگئے۔ اسی کی دہائی میں‌ پاکستان ایک غبارے کے اندر موجود تھا جس میں‌ صرف ایک ٹی وی چینل ہوتا تھا جس کو پی ٹی وی کہتے تھے۔ ہمارے والدین اور دادا پردادا کچھ زیادہ مذہبی نہیں‌ تھے لیکن ہم بچے ضیا کی حکومت کے ماحول میں‌ بہت مذہبی ہوگئے تھے۔ ہم وہ کتابیں‌ پڑھ رہے تھے جو ہمارے لیڈروں‌ نے ہمارے لیے چنی تھیں۔ بہت سی باتیں‌ بہت بعد میں‌ جاکر پتا چلیں‌ کہ کس طرح‌ ہماری حکومت اور فوج نے ہم سے جھوٹ بولے۔ 1993 میں‌ امریکہ منتقل ہونے کے بعد دنیا کے دیگر افراد سے ملنے کا موقع ملا اور دیگر نقطہ نظر سے لکھی گئی کتابوں‌ کو پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ جب میں‌ نے خشونت سنگھ کی کتاب ٹرین ٹو پاکستان پڑھی تو وہ میرے لیے پہلا موقع تھا جب حالات کو دوسری جانب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس دائرے سے ہر کوئی باہر نہیں‌ نکل سکتا اور بہت سارے بچے آج بھی اسی بلبلے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔

کچھ لوگ سائنس اور مذہب کی بحث میں‌ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ نہ انہوں‌ نے مذہب پڑھا ہے اور نہ ہی سائنس جیسا کہ نادرہ صاحبہ نے بھی اپنے خط میں‌ لکھا ہے۔ یہ پڑھ کر میں‌ نے سوچا کہ انہیں ضرور اپنا نقطہ نظر بتانا چاہئیے کیونکہ میں‌ نے اسلام، بہائی ازم، ہندوازم، سکھ ازم، بدھ ازم، عیسائیت اور یہودیت کا تقابلی جائزہ پڑھا ہے اور اس کے علاوہ میں‌ ایک میڈیکل ڈاکٹر، تحقیق دان اور سائنسدان بھی ہوں۔ سائنٹالوجی کو نہیں‌ بھولنا چاہئیے، وہ ایک نیا اور قابل توجہ نقطہ نظر ہے۔ جن لوگوں‌ کی کتابوں‌ تک رسائی نہ ہو وہ اس پر بنی ڈاکیومینٹری دیکھ سکتے ہیں۔ تقابلی جائزے سے یہ دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ جب بچپن سے ایک ہی طرح‌ کے خیالات بار بار سنے ہوں‌ تو وہ اس طرح‌ ذہن میں‌ بیٹھ جاتے ہیں کہ انسان ان کے بارے میں‌ سوچنا بند کردیتا ہے۔ حالانکہ ایک پانچ سال کا بچہ بھی باہر سے دیکھ کر ان اعتقادات کے خیالی ہونے کو صاف صاف دیکھ سکتا ہے۔ بہت سارے بالغ مسلمان مل کر نماز استسقاء پڑھتے ہیں اور ریڈ انڈین بارش کرنے کے لیے ایک خصوصی رین ڈانس کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ آیتہ الکرسی پڑھ کر سوتے ہیں‌ تاکہ ڈراؤنے خواب نہ آئیں اور رینڈ انڈین بستر کے سرہانے ڈریم کیچر اسی مقصد کے لیے لٹکاتے ہیں۔

میرا کسی بھی معلومات، مریض، معاشرے یا نظام کو سمجھنے کا ایک ذاتی نہایت سادہ فارمولا ہے جس کو پڑھنے والے چاہیں تو ڈاکٹر مرزا فارمولا کہہ سکتے ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل ہے۔

“اگر ایک ٹوکری میں‌ دو تربوز ہیں اور اس میں‌ دو مزید تربوز ڈال دیے جائیں‌ تو کل ملا کر اس ٹوکری میں‌ چار تربوز ہونے چاہئیں۔”

اس فارمولے کو افریقہ، انڈیا، چائنا، کینیڈا یا ایک خلائی راکٹ کے اندر بالکل اسی طرح‌ لاگو ہونا چاہئیے۔ پانی کائنات میں‌ جہاں‌ بھی ہو، اس میں‌ دو ہائڈروجن کے اور ایک آکسیجن کا ایٹم ہوتا ہے۔ جب آپ اس طرح‌ ہر مسئلے کو دیکھنا شروع کریں‌ تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ جب آپ خود کسی شعبے میں‌ ماہر بن جاتے ہیں اور آپ کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا میں‌ انسانوں‌ کی معلومات کی پہنچ کہاں‌ تک ہے اور ان کا کیا زریعہ ہے تو ایسا ہونا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کوئی آپ کو دھوکا دے سکے۔ جب آپ کسی بھی ایسے بینکر، بزنس کے لوگ، فلسفی، مفکر یا عام انسان سے ملیں جن کی ٹوکری میں‌ دو تربوز ہوں، اور دو مزید ڈالنے کے بعد ایک دن اس میں تین تربوز بتائیں، دوسرے دن پانچ اور کسی دن صفر تو آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ یہ قابل بھروسہ نظام نہیں‌ ہے۔

میڈیسن میں‌ ہزاروں بیماریاں ہیں۔ ہر بیماری کی علامات ایک معمے کے حصوں کی طرح‌ ہیں۔ جب ایک مریض‌ بتاتا ہے کہ اس کو پیٹ کے سیدھے اوپر کے حصے میں‌ تکلیف ہے جو چکنی خوراک کھانے سے بڑھ جاتی ہے تو دنیا کے کسی بھی علاقے کے ڈاکٹر گال بلیڈر کی بیماری کے بارے میں‌ سوچیں‌ گے۔

کیا سائنس اور مذہب دوست ہیں یا دشمن؟ کے نام سے ڈاکٹر خالد سہیل اور نادرہ مہر نواز کے خطوط کا تبادلہ دیکھئیے۔ میرے خیال میں‌ سائنس اور مذہب نہ ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں‌ اور نہ ہی دشمن۔ یہ ہماری اپنی انسانوں‌ کی نظر ہے جو ان علوم کے تعلق کو اینتھروپو مورفائز (شخصی تجسیم) کر رہی ہے۔

حیاتیاتی ارتقا پر تنقیدی نظر ڈال کر کوئی بھی یہ باآسانی دیکھ سکتا ہے کہ ایک خلیے کے جاندار سے لے کر آج کی دنیا کے پیچیدہ انسانی دماغ نے زندگی اور اپنے اردگرد کے نظام سے جڑے رہنے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو اور اپنے گرد موجود دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے زمانے کا انسان جب بادل کڑکتے سنتا تو سمجھتا تھا کہ اس میں‌ کوئی طاقت ور موجود ہے جو اس سے بات کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جس بات کے بارے میں‌ انسانوں کے پاس معلومات نہ ہوں تو اس کی وجوہات خیالی گھڑ لی جاتی ہیں۔

بہت سے لوگ اپنے خیالی جوابات کو حقیقی اس لیے بھی سمجھتے ہیں‌ کہ ان کے اردگرد موجود افراد ان خیالی باتوں‌ کو حقیقی سمجھتے ہیں۔ اس طریقے سے حاصل کی گئی معلومات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح‌ کوئی بھی کچھ بھی دعویٰ کرسکتا ہے اور ہم اس کو نہیں‌ جھٹلا سکتے کیونکہ اس کے لیے کسوٹی موجود نہیں‌ ہے۔ جو بھی افراد سائنس کی کسوٹی سے اپنے اعتقادات ناپتے ہیں وہ محض اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں کیونکہ اس سے صرف سوڈو سائنس بن سکتی ہے اصلی سائنس نہیں۔ ہمارے بہت سے جدید متکلمین سے یہ غلطی ہوئی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے بہت سے افراد آج بھی اسی کوشش میں ہیں۔

اس جگہ جو بڑا سوال ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سچائی کیوں دبائی جا رہی ہے؟ اس سے کس کا نقصان ہوتا ہے؟ کیا طاقت ور گروہ اس جھوٹ کے پہاڑ پر اپنی حکومت یا منافع بخش کارپوریشن بنا کر بیٹھا ہوا ہے؟ کیا پیسوں کا معاملہ ہے؟ میرے والد صاحب ایک آرکیٹیکٹ تھے۔ ایک آرکیٹکٹ کی بیٹی ہونے کے لحاظ سے میں‌ یہ جانتی ہوں‌ کہ عمارت کتنی بھی بڑی کیوں‌ نہ ہو اور اس کو سہارا دینے کے لیے کتنے ہی لاکھوں‌ لوگ موجود ہوں‌ لیکن اگر اس کی بنیاد میں‌ کجی ہے تو وہ کبھی کھڑی نہیں رہے گی۔ اس کو کھڑا رکھنے کے لیے ان سہارا دینے والے انسانوں‌ کی ساری زندگی کی محنت رائگاں جائے گی۔

ان مذہبی نظاموں‌ کی کسوٹی محض سیاسی اور سماجی ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کوئی اصلی چیز نہیں بن سکتی۔ اصلی چیز سے مراد پیراسٹامول ، ٹیلی فون کی ایجاد یا پولیو کی ویکسین ہیں۔ دنیا کے ہر کونے میں‌ موجود مذاہب پرانے گذرے ہوئے لوگوں‌ کی عقل، سمجھ اور مشاہدے کی حد تک سمجھی ہوئی معلومات ہیں۔ اسی وجہ سے ایک ہی سوال کے ان سب کے پاس مختلف جواب ہیں یعنی کہ وہ اوپر بتائے ہوئے تربوز کے ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

مذہب انسانی تہذیب کے ارتقاء میں‌ ایک سیڑھی کا قدم ہے۔ اس سے بہتر اور قابل بھروسہ قدم سائنسی تحقیق کا نظام ہے جو کئی درجہ آگے ہے۔ جب تک ہم خود اس سیڑھی پر نہ چڑھے ہوں، اگلے قدم کو سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ہماری معلومات کے دائرے سے باہر ہوتا ہے۔ جب لوگوں‌ کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو انہیں‌ یہ معلوم نہیں‌ ہوسکتا کہ ایسا کیا ہے جو وہ نہیں‌ جانتے۔ چونکہ بہت ساری باتیں‌ آج بھی ایسی ہیں جو ہماری معلومات سے باہر ہیں، انسان ان کے لیے یہ خیالی جوابات بنانے میں‌ مصروف ہیں کیونکہ یہ طریقہ بہت پرانا ہے اور اس کو بھلانے میں‌ اور نئے سبق سیکھنے میں‌ وقت لگتا ہے۔ انفرادی تعلیم و تربیت اور اس کے بعد اجتماعی شعور اجاگر کرنے میں‌ نسلیں‌ لگ جائیں‌ گی۔ جو اقوام یہ بات سمجھ لیں گی، وہ ہی ترقی کا زینہ چڑھتی جائیں‌ گی۔ مذہب اور سائنس میں دوستی یا دشمنی کا تعلق نہیں، بلکہ یہ انسانی فکر کی ارتقا کے دو مختلف درجے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).