محکمہ تعلیم اور ہم


”اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں“

ہر فرد واحد پر لازم ہے کہ اپنے حصے کا کام کرتا جائے نا کہ وہ اس بات کا انتظار کرے کہ فلاں کرے گا تو میں کروں گا۔ کیوں کہ ”افراد“ ہی کسی قوم کی اساس ہوتے ہیں۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

آج میرا دل چاہتا ہے کہ نہایت سادہ الفاظ و سادہ انداز بیان میں ایک بہت ہی ضروری نکتہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کروں۔ کیوں کہ اس ایک نکتہ میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔

کئی جگہوں اور کئی اداروں کے سلوگن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ”تعلیم نہیں تو کچھ بھی نہیں“، ”تعلیم سب کے لیے“، تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ”وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ بھی سوچا ہے کہ تعلیم جسے کہتے ہیں وہی مہیا بھی کی جا رہی ہے؟ تعلیم جس کا تعلق کتاب، طالب علم اور استاد تینوں کی مشترکہ کوشش سے ہے، کیا ایسا ماحول بھی مہیا کیا گیا ہے؟ کیا تعلیم اور کاروبار دو مختلف چیزیں ہیں؟

یہ سب سوالات سامنے رکھتے ہوئے آج کے دور میں میسر تعلیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی جگہ کتاب اور استاد کے ہوتے ہوئے طالب علم کے نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ جس میں طالب علم کا جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر حاضر ہونا شامل ہے۔ اور کسی جگہ کتاب اور طالب علم کی موجودگی کے باوجود موثر طرز تعلم اور اساتذہ کے نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ کہیں نظام تعلیم کاروبار کی نظر ہے۔

میں آج کے نظام تعلیم یا کسی ڈپارٹمنٹ کو نشانہ بنانے کے مقصد سے اپنے تحریر کو دور رکھتے ہوئے نپے تُلے الفاظ میں ایک بنیادی بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ معیاری تعلیم کے لیے ایک مثلث کا مکمل ہونا ضروری ہے۔

” استاد، طالب علم، والدین“

ان تینوں کی اپنی اپنی جگہ تعین ذمہ داریوں کو نبھانے کا نام ”تعلیم“ ہے۔ اور موثر تعلیم ممکن ہی تب ہے جب یہ مثلث مکمل ہو۔

اگر طالب علم اور والدین متوجہ ہیں اور اساتذہ بے توجہی سے کام لیں تو سب سے بڑا نقصان اساتذۂ کرام کی قدر میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر والدین اور اساتذہ کاوش کریں اور طالب علم کی شمولیت نہ ہو تو بھی کسی بھی صورت موثر انداز میں تعلیم ہو ہی نہیں سکتی۔ بالکل ایسے ہی استاد اور طالب علم کوشاں ہوں اور والدین عدم دلچسپی کا باعث بنے رہیں تو بھی یہ تدریس کا عمل بھینٹ چڑھتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریاں سمبھالے۔ اساتذہ بہترین تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مزید بھی دے سکتے ہیں۔ طالب علم صحیح معنوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ادا کریں۔ اور والدین اساتذہ کے ساتھ وہ رویہ اور برتاؤ اپنائیں جو وہ چاہتے ہیں ان کی اولاد ان کے ساتھ اپنائے۔ اپنی اولاد کو وقت کی پابندی اور اساتذہ کا ادب سکھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).