کاروبار اب تعلیم میں


لغت کے اعتبا رسے دیکھا جائے تو درسگاہ وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، انسان کی پوری زندگی سیکھنے کے عمل میں گزرتی ہے ایک بچہ ہوش سنبھالنے سے لے کر ابد تک سیکھتا رہتا ہے زندگی کا ہر موڑ اسے کچھ نہ کچھ سبق دے رہا ہوتا ہے۔ اگر درسی علوم کی بات کی جائے تو روزانہ جو سبق دیا جاتا ہے اس میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے تعلیم ہی انسان جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے، مگر اس شخص کی مرضی ہے وہ اپنی زندگی کی ضروریات کو کس طریقے سے پورا کرے۔ کون سے راستے کی طرف اپنا قدم بڑھائے یہ بات تو طے ہے کہ ہر شخص کو رزق اللہ عطا کرتا ہے مگر وسیلہ انسان خود بناتا یے۔ جس کے ذریعے وہ دو وقت کی روٹی عزت سے کھا سکے۔ اس کے بر عکس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جہاں مختلف مقامات پر علم کے حوالے سے کئی مشہور اقوال کچھ اس طرح ہیں۔

”علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے“۔ اور ایک اور جگہ پر علم کے بارے میں کہا گیا ہے۔ ”علم حاصل کروں ماں کی گود سے قبر تک“۔ اس سے اک بات تو طے ہے کہ کوئی بھی شخص زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔ ”جیتتا وہی ہے جو زندگی کا سبق اچھے سے سمجھ لیتا ہے۔ مگر جہاں لوگوں کو رہنمائی دی جاتی ہے مثلا“ اسکول، کالج اور یونیورسٹی وغیرہ۔

جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ بھی بڑا ہوکر معاشرہ کا ایک اچھا فرد ہونے کا ثبوت دیگا معاشرے میں اک اچھا مقام ہوگا ہر کوئی اچھی نگاہ سے دیکھے گا مگر وہ لوگ انفرادی طور پر سوچ رہے ہوتے ہیں اس لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ ہمارا بچہ اچھے اسکول میں زیرتعلیم ہے۔ مگر وہ اپنے بچے اور اس کی تعلیم اور اسکول میں ہونی والی سرگرمیوں سے بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں اسی طرح کچھ اداروں کا حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے کہ کوئی بھی ان پر نظر نہیں رکھے ہوئے ہے اس وجہ سے معاشرے میں بے شمار لوگ موقع پا کر تعلیم کو کاروبار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں دیکھتے دیکھتے ایک ہی علاقے میں چھوٹے چھوٹے کئی اسکول نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو نزدیک ہونے کا فائدہ ہوتا ہے وہی اس کی تعلیم نہ ہونے کا کوئی برا محسوس نہیں ہورہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے محلے میں ایسے اسکولوں کی تعداد بڑھ جاتی اور تعلیم کا معیار گر جاتا یے لوگوں کا کاروبار تو چل جاتا ہے مگر معاشرہ ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جاتا ہے اور لوگوں کا کاروبار عروج کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔

اس کی وجہ سے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر علامہ اقبال، سر سید احمد خان، جیسے عظیم لیڈروں کا جنم لینا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ معاشرہ کسی ایسے کام کی روک تھام کی کوشش نہ کرے جس سے لوگوں کو نقصان ہو تو وہ معاشرہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہو تا ہے۔ اور جب کسی کی زندگی کا مقصد تعلیم نہیں صرف نوکری ہو جاتی ہے تو پھر معاشرے میں نو کر ہی پیدا ہوا کرتے ہیں اچھے انسان نہیں۔

اگر ایک چھوٹے بچے کی بات کی جائے تو کم عمری میں ہی اتنا وزنی بستہ اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کم عمری ہی میں بیماریاں جنم لینے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ جب کسی شخص پر اس کی ہمت سے زیادہ کام دے دیا جاے یا اس پر زیادہ بوجھ ڈال دیا جاے ء تو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم سب ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ جہاں بہت سے عام شہری یا اس ملک کے باشندے جہاں جدید دور کی ٹیکنالوجی سے مستفید یے وہی الیکٹرونک گیجٹ ”اسمارٹ فون“ نے جہاں لوگوں کی زندگیوں میں اتنی آسانیاں پیدا کی ہیں وہی ہم سب شہری اور محب وطن اسی فون کی ذریعے سے ایوان بالا تک یہ سب کچھ پہنچا سکتے ہیں اور ان سے اس بارے میں پوچھ سکتے ہیں کیونکہ ان سب کو اسی کام کے لیے قلمدان دیا گیا ہے۔ اگر ذمہ دار شہری پوچھنے سے گھبرائے گا تو پھر اسی طرح یہ تعلیم سے بھی کنارہ کشی ہو جاے گی۔ کیونکہ ”ہر فرد کے ہاتھ میں ہے عوام کی تقدیر“ اور ”ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ“

اویس عارف
Latest posts by اویس عارف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).