موجودہ پاکستانی سیاست: آئیے “اینجائے کریں!”


پچھلے چند روز میں جناب پرویز الہٰی اور جناب شجاعت حسین صاحب اک دم ہی ابھر کر پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر سامنے آئے ہیں اور سیٹھ میڈیا کا ٹی وی اک بار پھر پاکستان میں بونوں کی تشکیل کر رہا ہے۔ چوہدری برادران نے سرعام کہا ہے کہ وہ عمران نیازی صاحب کو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو کسی بھی شرط کے بغیر باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ ان کی اس بات پر احباب اپنی بالوں اور بغیر بالوں والی بغلیں بجا رہے ہیں۔

صورتحال کچھ ایسی ہے کہ مسلم لیگ نواز میں اک فارورڈ بلاک بنانے کی مسلسل اور بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس بات کی لازماً کوشش کی جائے گی کہ نواز شریف صاحب کے باہر جاتے ہی، اپوزیشن کے حوالے سے اس مکمل بےکار جماعت پر اک ضرب لگائی جائے اور اک فارورڈ بلاک پنجاب اسمبلی اور اک قومی اسمبلی میں تشکیل دیا جائے۔ اس کام کے لیے ویڈیو فلمز کے علاوہ ہزاروں بہانے ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے حالیہ سینیٹ کے عدم اعتماد کے ووٹ وقت تھے۔ اک سینیٹر تو عدم اعتماد کے ووٹ سے تین دن قبل اپنے دفتر میں اک فائل دیکھ کر تقریبا رونا شروع ہو گئی تھیں۔

یہ فارورڈ بلاک یا تو پھر پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی حمایت میں کام آئے گا، یا پھر چوہدری برادران کے پروں کے نیچے مامتا تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جب انائیں بلند ہوں تو آدرشوں کی پرواہ نہیں کی جاتی۔

دنیا کی سب سے زیادہ بےکار اپوزیشن کرنے والی، مسلم لیگ نواز اس وقت شاید چومُکھی نہیں، “سومُکھی” جنگ لڑ رہی ہے اور طاقت کے اس کھیل کو چلانے کے لیے جو تین چار شاندار افراد مہیا تھے، وہ سب جیل میں ہیں: میاں صاحب، عباسی صاحب اور سعد رفیق صاحب۔ باقی جو باہر ہیں، ان کا گزارا آجکل ٹویٹر پر چل جاتا ہے۔ شہباز شریف صاحب پاکستان، بالخصوص پنجاب میں سیاست کے حوالے سے صرف “طاقت” ہی کے قبلہ ہونے کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں اور اس لیے شعبہ فلاح حیوانات کے ذمہ داران کے ساتھ اکثر نرم، اور کبھی کبھی گرم ہوتے ہیں۔

ویسے شعبہ فلاحِ حیوانات کی ذہانت کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ کیسے پاکستان کو ہر مرتبہ ہی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر، سماج، معاشرت، معیشت اور سیاسی ارتقاء کے رستے سے اتار، تفرقہ، تنزلی، کمزوری، نااہلی اور دنیا میں بدمقامی کے نوکیلے پتھروں پر گھسیٹ کر پیچھے لے جاتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ تاریخ میں یہ سیاسی لمحہ، اصولوں کی سیاست کا نہیں۔ یہ طاقت کے کھیل کا ہے اور یہ کھیل کہیں زیادہ دلچسپ اور عمدہ اسلوب سے بھرپور ہو سکتا تھا کہ اگر طرفین کا مقابلہ برابر کا ہوتا۔ مونگ پھلی کے دانے کے برابر تزویراتی سیاسی ذہانت رکھنے والے، مگر اک پلے ہوئے پہلوان کے سامنے، کمزور سے پولیو زدہ سیاسی سماج اور اس سیاسی سماج کی نمائندگی کرتی ڈیڑھ دو نام-نہاد سیاسی جماعتوں جیسے پتلی ٹانگوں والے بچے کی کیا حیثیت ہو گی؟ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں۔

اور چونکہ شعبہ فلاحِ حیوانات اس بات پر مصر ہے کہ پاکستان کو چلانے کے لیے محترم عمران نیازی صاحب کی قیادت میں بہترین خدمات فراہم کرنے والے بخاری، چوہدری، حق، ڈاکٹر اور عظیم مستقبل بین، شیخ، اعوان، قریشی، راجہ، چوہدری، سعید، آفریدی وغیرہ سے بہتر ٹیم روئے زمین پر ممکن ہی نہیں، تو تمام جن و انس پر یہ فرض ہے کہ شعبہ کے انتخاب کی داد دے اور شانداریت کی معراج کو چھو جانے والی قیادت کے پچھے مسلسل دوڑتے رہا جائے۔ اور ویسے بھی کہ پاکستان کو جب کبھی کوئی مسئلہ کہیں بھی بنا تو ٹک ٹاک کی “سٹار سیدانی” میدان سنبھال لیں گی۔ ان کی حرکات میں برکات بھی تو بہت ہیں۔

پانچ کا تھا تو بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔

پچاس کا ہونے آیا ہوں تو اک اور وزیر اعظم بظاہر اب “اگے ہی لغا جا” رہا ہے۔

دائروں کے اس سفر میں میرے وطن نے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں مواقع جو ضائع کر دئیے، ان کا حساب کتاب تو ممکن ہی نہیں۔

اک اختتامی بات بہرحال کہنا بنتی ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ تجربہ پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں دے پائے گا۔ اگر کوئی فائدہ دینے کا کوئی “خدشہ” موجود ہوتا تو پچھلے ڈیڑھ برس کی اٹھان میں ظاہر ہو چکا ہوتا۔ بالآخر پاکستان نقصان میں رہے گا۔ موجودہ حکومتی تجربہ بہت ہوا تو مفت کی اک سستی تفریح ہے جو 22 سالہ “جدوجہد” نے ایسی گاڑی کی شکل میں تشکیل دی ہے کہ جس کا اک پہیہ گڈے کا ہے تو دوسرا بوگے انجن کا۔

آئیے مگر اک بدنام فقرے کے دوسرے حصے کے مطابق: “اینجائے کریں!”

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).