الف سے اللہ


بولو بیٹا۔ الف۔ الف سے انار۔

جب کانوں میں الف نام کی آواز آتی ہے تو قدرتی طور پر ذہن میں الف سے انار ہی آتا ہے۔ ایسا آخر کیوں کر پے؟

یہ کون سا طریقہ کار ہے جو بچپن کے نا پختہ ذہن میں محفوظ ہوچکا ہے۔ جو ہر یادآوری پر بغیر کسی تاخیر اپنا جواب ذہن میں منتقل کر دیتا ہے اگر سوچا جائے تو بات بڑی سادہ سی ہے اور اس کا اثر بلا شبہ بڑا گہرا اور دائمی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کے متعلق یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ یہ تو بچہ ہے بھلا اس کو کیا معلوم؟ اس کی سمجھ کچھ نہیں آئے گا؟ یہ قیاس سراسر غلط ہے۔ اس کی پہلی مثال ہمیں مسلمان گھرانے میں بچے کے پیدا ہونے پر ملتی ہے جب بچے کی پیدائش پر پہلا کام اس کے کان میں اذان دینا ہوتا ہے اور تکبیر پڑھی جاتی ہے۔

اس کے بارے میں چانچنے پر اس میں چھپی حکمت عیاں ہوتی ہے۔ جب ہمارا دین بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان کہنے کے لیے کہتا ہے تو اس کا مقصد بچے کے لاشعور میں اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ہونے کی شہادت اور مسلمان ہونے کی ودعیت کا اقرار ہوتا ہے جو کہ اس کے دماغ کے پروگرامنگ یا دوسرے لفظوں میں اس کے دماغ کے کمپیوٹر سافٹ وئیر میں محفوظ کردیا جاتا ہے اور پہلے کلمے کو اس کے ذہن و دماغ میں نقش کر دیا جاتا ہے۔

مطلب روحانی طور پر اس کی روح کو اس بات کا پابند کردیا جاتا ہے کہ اس کا ایمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہے تو گویا اس ناتے وہ مسلمان ہے۔ یہ عمل اس وقت کیا جاتا ہے جب ہم صرف گوشت پوست کے ٹکڑے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتے حتی کہ ہم نے اپنی آنکھیں ہی کھولی ہوتی ہیں اور کانوں میں صدا آتی ہے اور وہ ذہن کے کسی خانے میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یہ بات بھی تجربے میں آتی ہے کہ اکثر و بیشتر بچے جانے انجانے پہلا لفظ اللہ ہی پکارتے ہیں جوکہ یقینا اس اذان کے معجزے میں سے ایک ہوسکتا ہے۔

تو ہم بات کر رہے تھے ”الف سے اللہ“ نہیں نہیں ہم الف سے انار کی بات کر رہے تھے۔ ہم بات کر رہے تھے تعلیم کی پہلی سیڑھی کی؛ جہاں پر قدم رکھتے ہی ہمارے اندر شعور اور آگاہی کا سفر شروع ہوجاتا پے۔ اگر یہ سفر زندگی کے سفر کی مانند اللہ سے شروع ہو تو کتنا اچھا ہو؟ کبھی سوچا آپ نے؟

سوچا تو شاید میں نے بھی نہیں پر اب سوچا ضرور ہے جب اپنے بچوں کی درس گاہ بننے کا شرف ملا۔ ماں علم و آگاہی کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ رات میں جب ایک ماں لوری سناتی ہے تو وہ لوری ساری زندگی کان میں رس گھولتی رہتی ہے۔ لوری کا اثر اس قدر دائمی ہوتا ہے کہ بندہ بڑھاپے میں بھی اپنی ماں کی آواز سنتا ہے اور اس کو اپنی ماں کا لب و لہجہ اور خاص کر کہ وہ لوری یاد رہتی ہے۔ جیسے کمپیوٹر کے مائیکرو چپ میں کوئی بات منتقل کردی جائے اور اگر سالوں بعد بھی اس پر کلک کیا جائے تو وہ اپنے محفوظ حالت میں پائی جائے۔

اسی طرح جب بچے کے کند ذہن میں جو بات ڈالی جاتی ہے وہ تا حیات اس کے دماغ میں رہتی ہے۔ اسی لئے حاملہ خواتین کو دین اسلام میں خاص طور پر اپنا ذہنی و جسمانی خیال رکھنے کا کہا گیا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق بچے کے افزائش اور نشو و نما پر پڑتا ہے۔ یہودی طبقے کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ان نو مہینوں کے درمیان حاملہ خواتین کے لیے اک خاص پروگرام ترتیب دیتے ہیں جس میں خواتین کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے حفظان صحت اور ماحول کا خیال رکھیں اور اپنی مصروفیات ان تمام چیزوں پر مبذول رکھیں جس سے ان کے ہونے والے بچے پر اچھا اثر پڑے اور وہ پیدائشی ذہنی طور پر مضبوط اور بھرپور صلاحیتوں کا حامل ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ذہنی آزمائش کے کھیل اور نصاب بھی مرتب کرتے ہیں جن سے حاملہ خواتین کو مستفید کیا جاتا ہے۔

یہ بات ہم جانتے ہیں کہ بچے کی ذہنی تربیت تو ماں کی پیٹ میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ بچہ ماں کے نقل و حرکت سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ اس لئے ہم مسلمان حاملہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ عبادت اور قرآن کی تلاوت کرنے کا کہا جاتا ہے تاکہ بچے کی روحانی تربیت جاری رہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جو اپنے بچے کو اس کی توتلی زبان میں کچھ کہنا سکھائیں اور وہ ساری عمر اس کے اندر موجود نہ رہے۔ تو کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو الف سے انار کے بجائے الف سے اللہ یاد کروائیں۔ کیوں نہ ہم اس کے تعلیم کے راستے کی پہلی پیڑھی پر اس کا ہاتھ اپنے رب کے ہاتھوں میں سونپ کر ایک مبارک سفر کا آغاز کریں۔ آئیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر چیز کی ابتدا اور انتہا وہی اعلی ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہمارا پالن ہار ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).