عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں فرق


پاکستانی سیاست ہمیشہ سے ہی ذاتی مفاد پرستی کا شکار رہی ہے۔ بڑے بڑے نامور سیاستدان ملکی مفاد کی پرواہ کیے بغیر ذاتی یا پارٹی کے سیاسی مفاد کے لئے ملک میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔ بیسویں صدی میں پروان چڑھنے والی نسل نے کوئی ایسا الیکشن نہ دیکھا جس کے بعد الیکشن ہارنے والی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات نہ لگائے ہوں۔ پچھلے دو الیکشنز کی بات کی جائے تو مسلم لیگ نواز 2013 کے الیکشنز میں بھاری اکثریت سے وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جس کے بعد تحریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کئیے اور چار حلقے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا جسے نواز حکومت ماننے سے انکار کرتی رہی۔ الیکشن کمیش اور عدالتوں میں درخواستوں کے باوجود جب حلقے نہ کھولے گئے تو تحریک انصاف نے دھرنا دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلام آباد کا رُخ کیا۔

اسی طرح 2019 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن پارٹیز نے کنٹرولڈ الیکشنز کے الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت کو سیلیکٹڈ حکومت کہنا شروع کیا۔ انتخابات کے فوری بعد اسمبلی میں حلف نہ اُٹھانے پر بھی غور کیا گیا لیکن بالاخر اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ جمہوری نظام چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اسمبلیوں میں جایا جائے۔ چونکہ ملکی معاشی حالات پچھلے دو تین سال میں ملکی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تنزلی کا شکار تھے تو نئی حکومت کے لئے ان پر قابو پانا بہت بڑا ہدف تھا۔

عمران خان کے قریبی دوست اسد عمر کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان دیا گیا لیکن وہ معاشی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے جس پر بالاخر انہیں استعفیٰ دینا پڑا اور حفیظ شیخ کو مشیرِ خزانہ مقرر کیا گیا۔ جس کے بعد حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ بھی ڈیل طے پا گئی۔ چونکہ آئی ایم ایف قرض دینے سے پہلے کڑی شرائط رکھتی ہے اور قرض لینے والے ملک کو اُن شرائط پر عمل کرنے کی صورت میں ہی قرض دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں مہنگائی نے زور پکڑا اور عوام کا بُرا حال کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ دوسری طرف کچھ حکومتی وزراء کی بیان بازی اور غلط پالیسی سازی کی وجہ سے ملک میں بے یقینی کی صورتحال پھیلی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔

جب حکومت ایک سال کا عرصہ گزارنے کے باوجود کوئی معاشی سمت کا تعین نہ کر سکی اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبنے لگے تو جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف آزادی مارچ کا فیصلہ کیا جو بالاخر کشمیر ہائی وے پر دھرنے کے صورت اختیار کر گیا اور مولانا نے اعلان کیا کہ  وزیر اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات تک یہ دھرنا جاری رہے گا۔

پچھلی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نواز شریف کے خلاف پی ٹی آئی کے دھرنے اور عمران خان کے خلاف جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں چند فرق دیکھیں تو سب سے اہم یہ کہ دونوں دھرنوں کے منتظمین نے دعوہ کیا کے ہم لاکھوں کا مجمع لائے ہیں لیکن حقیقت پر مبنی رپورٹس دیکھی جائیں تو تحریکِ انصاف کے دھرنے میں شرکاء کی تعداد مولانا کے دھرنے سے کئی گُنا کم تھی۔

مولانا کے دھرنے کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا بھی قرار دیا گیا۔ کم و بیش ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد کے الفاظ تو ٹی وی چینلز پر مختلف اینکر پرسنز نے بولے۔ جتنی زیادہ تعداد ہو انہیں منظم رکھنا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے لیکن اس دھرنے میں نہ کسی کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور نہ ہی بے وجہ کسی کا رستہ روکا گیا۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے دھرنے کو یاد کیا جائے تو پی ٹی وی حملہ سمیت متعدد ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جس سے جانی و مالی نقصان بھی ہوا اور ملکی معیشت کو بھی بھاری نقصان دیکھنا پڑا۔

دوسرا بڑا فرق خواتین (رپورٹرزو ورکرز) کے ساتھ حسنِ سلوک اور بد اخلاقی ہے۔ تحریکِ انصاف چونکہ نوجوانانِ پاکستان کی نمائندہ ہونے کی دعویدار پارٹی ہے تو اس دھرنے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ دھرنے کی جگہ پر خواتین ورکرز اور خواتین رپورٹز کے ساتھ بد تمیزی کے متعدد واقعات دیکھنے میں آئے جس سے پورے پاکستان کے سر شرم سے جھک گئے۔ اس کے بر عکس مولانا کے دھرنے میں خواتین ورکرز کو گھر رہ کر دعا کرنے کی تلقین کی گئی لیکن جو چند ایک خواتین رپورٹز دھرنے کی رپورٹنگ کے لئے گئیں اُنکو عزت سے چادریں پیش کی گئیں اور کہیں بارش سے بچانے کے لئے خاتون رپورٹر کے لئے وکرز چھتری پکڑے کھڑے نظر آئے۔

تحریک انصاف کے دھرنے میں جہاں میوزک کے ساتھ ساتھ خواتین و حضرات کا ڈانس بھی دیکھنے میں آیا وہاں مولانا کے دھرنے میں درود و صلاۃ کی محافل دیکھنے میں آئیں۔ عمران خان کی دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک جیسی چھوٹی پارٹی نے بھرپور شرکت کی اور طاہرالقادری صاحب خود بھی اسٹیج پر موجود رہے جبکہ مولانا کو ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پاکستان کی حمایت حاصل رہی۔

دوسری جانب اگر پختہ ارادہ کی بات کی جائے تو اس میں عمران خان مولان پر بازی لے گئے اور 126 دن تک پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا جبکہ مولانا نے چودہ دن کے دھرنے کے بعد ہی مرکزی دھرنا ختم کرکے ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹے چھوٹے دھرنے دینے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔

دونوں دھرنوں میں ایک چیز مشترک ضرور تھی کہ  دونوں راہنماؤں کو اپنے مطالبات کی تکمیل کے بغیر ہی دھرنا ختم کرنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).