فیڈور دوستویووسکی کی ایک کہانی – تخمینہ


کافی عرصے کی بات ہے مجھے اپنے قصبے سے کاروبار کے سلسلے میں صوبے کے دارالحکومت جانا پڑا جہاں میری ملاقات ایک بڑے دولت مند تاجر سے ہوئی جس نے مجھے بچوں کی کرسمس پارٹی میں مدعو کیا۔ اگرچہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن یہ چھٹیوں کا موسم تھا اور اس دن میرا اور کوئی پروگرام بھی نہیں تھا۔ میں نے سوچا گھر بیٹھ کر بور ہونے کی بجائے اس پارٹی ہی میں ہو آتا ہوں۔ حالانکہ اونچے طبقے کے لوگوں کے یہ چونچلے مجھے بالکل نہیں بھاتے۔

پارٹی میں پہنچا تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بیگمات اپنے زیورات کی نمائش میں مصروف تھیں اور مرد حضرات ایک دوسرے کو دولت اور اثر و رسوخ کے گز سے ناپنے میں۔ مہمان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے تھے۔ بچوں نے ایک ہنگامہ برپا کیا ہو اتھا۔ لیکن ان میں ایک بہت پیاری سی بچی جس کی عمر گیارہ سال کے قریب ہو گی سب سے الگ کرسمس کے درخت کے پاس کھڑی تھی۔

میزبان خاتون بچوں میں تحفے تقسیم کر رہی تھیں۔ یہ تحفے والدین کی مالی اور خاندانی حیثئیت کو دیکھ کر خریدے گئے تھے۔ سب سے قیتی تحفہ اس گیارہ سالہ بچی کو ملا۔ پتہ چلا کہ اس کے والدین شہرکے امیر ترین خاندانوں میں سے ہیں اور انہوں نے ابھی سے اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے تین لاکھ روبل الگ کر کے بینک میں جمع کرا دیے ہیں۔

اس بچی کے ساتھ اسی کا ایک ہم عمر بہت خوش شکل لڑکا فرش پر بیٹھا تھا لیکن اس کے کپڑے بہت سادہ تھے جن سے اس کی غربت ظاہر ہورہی تھی۔ اسے صرف ایک سیب اور بغیر تصویروں کی ایک کتاب کا تحفہ ملا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ آیا کا بیٹا ہے اور میزبان کے بچوں کا خیال رکھنے کے لئے پارٹی میں شریک ہے۔

میں چونکہ میزبان سے صرف سرسری طور پر واقف تھا اور باقی سب شرکاء کے لئے مکمل اجنبی، اس لئے اکیلا کھڑا مہمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ منافقانہ گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے دیکھتا رہا۔ میری نظر ایک لمبے قد کے پتلے دبلے مہمان پر پڑی جو میری ہی طرح اجنبی لگ رہا تھا۔ اس کے لباس اور طور طریق سے صاف پتہ چل رہا تھا اس کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے نہیں۔ ہر کوئی اسے نظر انداز کر رہا تھا۔ وہ تنہا کھڑا تھا اورکسی دوسری مصروفیت کی غیر موجودگی میں اپنی مونچھوں کو مسلسل تاؤ دیے جا رہا تھا۔ یہ مونچھیں ا س کی پوری شخصیت پر حاوی تھیں۔ لگتا تھا خدا نے مونچھوں کو پہلے تخلیق کیا اور پھر خود اپنی تخلیق سے اتنا خوش ہوا کہ صرف ان کو تاؤ دینے کے لئے اس آدمی کو بنادیا۔

میری نظر ایک اور دلچسپ حلیے کے مہمان پر پڑی جو اس شخص سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد تھا۔ سب حاضرین کی توجہ کا مرکز یہ شخص ریشمی قمیص، سرج کی چست پتلون، مخملیں لمبا کوٹ، سرخ ٹائی اور اسی رنگ کا ریشمی رومال کوٹ کی جیب میں سجائے ہوئے تھا۔ اس کے لباس ہی سے نہیں، پوری شخصیت سے دولت مندی رس رہی تھی۔ اس کا غبارے کی طرح پھولا چہرہ داڑھی مونچھ سے آزاد تھا، ٹانگیں چھوٹی چھوٹی لیکن دھڑ خاصا جسیم تھا۔ ایک باعزت توند نے اس پر خوشحالی کی تصدیق کی مہر ثبت کر دی تھی جس پر چڑھائی واسکٹ کے بٹن پھٹ پڑنے کے لئے تیار تھے۔ کسی نے بتایا کہ اس کا نام یاروسلاف ہے اور اس کا شمار آڑھت کے بڑے بیوپاریوں میں ہوتا ہے۔ میزبان اور مہمان خوشامدانہ انداز میں یاروسلاف کے آگے پیچھے پھر رہے تھے اور وہ ایک بے نیازی سے ان میں سے اکثر کو نظر انداز کر رہا تھا۔

مجھ سے یہ کریہہ ریا کاری برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن میں خود بھی ایک بناؤٹی مسکراہٹ کو ہونٹوں پر سجائے اس ہجوم سے کھسکتا ہو ا میزبان کی لائبریری میں چلا گیا جہاں میں نے ایک بڑے سے پودے کے پیچھے رکھی کرسی پر پناہ لی۔

تھوڑی دیر کے بعد وہی خوبصورت بچی اپنی گڑیا لئے آیا کے بیٹے کے ساتھ لائبریری میں داخل ہوئی۔ میر ی موجودگی کا احساس کیے بغیر دونوں بچے قالین پر بیٹھ کرخاموشی سے گڑیا سے کھیلنے لگے۔ ڈرائنگ روم سے زور دارگفتگو کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ان میں ہمارے فربہ دوست کی آواز خاصی نمایاں تھی۔ وہ اس خوبصورت بچی کے ماں باپ سے بڑی گرم جوشی سے گفتگو کر رہا تھا۔ لیکن کچھ دیر کے بعد اس کی آواز آنی بند ہو گئی۔

اور میں بھی اب اونگھنے لگا تھا۔

اچانک لائبریری کا دروازہ ایک دفعہ پھر کھلا۔ یاروسلاف اندر آیا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ تنہا ہے کیونکہ اس کو بچوں کی یا میر ی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ لیکن پودے کے پیچھے سے میں اسے صاف دیکھ سکتا تھا۔ وہ سرگوشیوں میں اپنے آپ سے باتیں کررہا تھا۔ لگتا تھا جیسے انگلیوں پر کچھ جمع خرچ کا حساب کرنے میں مصروف ہے۔

”تین سو۔ ہزار، تین لاکھ، گیارہ، بارہ، سولہ۔ پانچ سال، پانچ فی صد، بارہ پانچ ساٹھ۔ تو اس حساب سے پانچ سال میں چار لاکھ۔ لیکن اس کا باپ تو بہت کایاں کاروباری ہے۔ وہ تو آٹھ بلکہ دس فی صد سے کم پر نہیں لگائے گا۔ چلیں فرض کریں پانچ لاکھ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے، پانچ سال۔ کم از کم پانچ لاکھ۔ “

اب اسے جیسے اطمیان ہو گیا تھا۔ وہ کمرے سے نکل کر دوبارہ ڈرائنگ روم میں بچی کے باپ سے اپنی گفتگو جاری رکھنے کے لئے نکلنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر اچانک دونوں پچوں پر پڑی جو ابھی تک خاموشی سے گڑیا سے کھیل رہے تھے۔

وہ یکایک چونک کر وہیں منجمد ہو گیا تھا اور عجیب نظروں سے بچی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے جیسے رال ٹپک رہی تھی۔ احتیاط سے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ مجرمانہ انداز میں دبے پاؤں ہاتھ ملتا بچی کی طرف بڑھا اور اس کے سنہری بالوں کو چوم لیا۔

بچی کے لئے اس کی موجودگی اور یہ ناگہانی حرکت انتہائی غیر متوقع تھی۔ وہ خوف زدہ ہو کر چیخی لیکن اس کی آواز مہمانوں کی پر شورگفتگو کی وجہ سے دب گئی۔ یاروسلاف نے اچانک پینترہ بدلا اور بچی سے بہت میٹھے پن سے پوچھا کہ وہ لائبریری میں کیا کر رہی ہے۔

”ہم کھیل رہے ہیں“۔ بچی نے جواب دیا۔

”اس نوکر کے ساتھ؟ “

اس نے حقارت سے آیا کے بیٹے کی طرف اشارہ کیا اور پھر سختی سے لڑکے سے مخاطب ہوا۔

”اٹھو یہاں سے اور باورچی خانے میں جا کر نوکروں کی مدد کرو“

”نہیں نہیں میں اس کے ساتھ یہیں کھیلوں گی“

بچی نے کہا اور آیا کے بیٹے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

یاروسلاف غصے کو پی گیا اور مصنوئی مٹھاس سے بچی سے کہا،

”اگر میں تمھارے ماں باپ سے ملنے تمھارے گھر آؤں تو تمھیں کیسا لگے گا؟ “

یہ کہ کر اس نے پھر بچی کو پیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کراہت سے یاروسلاف کا ہاتھ جھٹک دیا اور آیا کے بیٹے کے ساتھ لپٹ گئی۔

اتنے میں دروازے کے پاس کسی کے قدموں کی آہٹ ہوئی۔ یاروسلاف گھبرا کر اٹھا اور ڈرائنگ روم میں واپس چلا گیا۔

کچھ دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں تنہا یٹھا ہوں۔ دونوں بچے لائبریری سے جا چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ اب میں بھی پارٹی میں شرکت کرلوں۔

ڈرائنگ روم میں یاروسلاف مہمانوں کے درمیان گھرا ہوا ایک زرق برق لباس میں ملبوس خاتون سے باتیں کر رہا تھا جس نے اسی بچی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ وہ بچی کی خوبصورتی، اس کے لباس، ادب آداب، رکھ رکھاؤ کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ بچی کی ماں خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھی۔ اس کا باپ بھی تعریفیں سن سن کر خوش ہورہا تھا۔ انہوں نے یاروسلاف کو اپنے گھر ڈنر پر آنے کی دعوت دی جو اس نے گرم جوشی سے قبول کر لی۔

میں اس ڈرامے س لطف اندوز ہو رہا تھا اور مزہ لینے کے لئے میں نے قدرے طنز اور قدرنے تجسس سے میزبان سے پوچھا کیا یہ معزز مہمان شادی شدہ ہے؟ لیکن میری آواز شاید کچھ زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ ایک دم خاموشی چھا گئی۔ سب مہمانوں کی نظریں میری طرف مڑ گئیں۔ یاروسلاف مجھے گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں اور اگر اس کا بس چلتا تو شاید خون میں لت پت میری لاش اس قمیتی قالین پر پڑی ہوتی۔ اس موقع پر میں نے پارٹی کو الوداع کہنے ہی میں عافیت سمجھی۔

کچھ دن کے بعد میں اپنے قصبے واپس چلا گیا۔ کافی عرصے تک شہر کا چکر نہ لگا۔ تقریبا پانچ سال کے بعد مجھے پھر کاروبار کے سلسلے میں اسی شہر جانا پڑا۔ اس دوران ایک دن جب میں وہاں کے سب سے بڑے چرچ کے سامنے سے گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ چرچ کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔ لگتا تھا سارے شہر کا آسودہ حال طبقہ یہاں اکٹھا ہو گیا ہے۔ اپنے تجسس کی تسکین کے لئے میں اندر چلا گیا۔ پتہ چلا وہ ایک شادی کی تقریب تھی۔

اگلی صفوں کے پاس ایک متمول سا شخص جس کی ٹانگیں چھوٹی چھوٹی لیکن دھڑ خاص ضخیم تھا اپنے مخملیں کوٹ پر بڑا سا پھول سجائے، جیب میں ریشمیں رومال رکھے، چست پتلون پہنے خوش لباس لوگوں کے گروہ میں گھرا ہوا تھا۔ غبارے کی طرح پھولا ہوا چہرہ کچھ مانوس سا لگا۔

اتنے میں شور مچا کہ دلہن آ رہی ہے۔ سب لوگ اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میں نے زندگی میں خوبصورتی کی ایسی مثال کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن سب بناؤ سنگھار کے باوجود دلہن کی رنگت پیلی پڑی ہوئی تھی۔ وہ بہت اداس لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی لالی سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دیر تک روتی رہی ہے۔ بہت خوبصورت سفید عروسی گاؤن کی نقاب کے پیچھے نیم چھپے چہرے سے اس کا معصوم بچپن جھانک رہا تھا۔

ایک عورت سرگوشیوں میں اپنی ساتھی کو بتا رہی تھی کہ دلہن پچھلے مہینے ہی سولہ سال کی ہوئی ہے۔

میرے ذہن میں اچانک پانچ سال پہلے سنے کچھ ہندسے بجلی کی گرج کی طرح گونجے۔ گیارہ پانچ سولہ۔ پانچ فی صد، آٹھ فی صد، تین لاکھ، پانچ لاکھ۔

میں سوچ رہا تھا۔

اس کا تخمینہ کتنا درست تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).