مولانا اور خان صاحب کے دھرنے میں کیا چیزیں مختلف تھی


پاکستان میں اب تک بہت سی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جلسے اور مارچ کر چکی ہیں۔ لیکن جو دھرنے آج کی نسل کو ہمیشہ یاد رہیں گے وہ ایام کے اعتبار سے ایک سو چھبیس دن تک جاری رہنے والا عمران خان کا دھرنا ہے۔ اور تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا مولانا فصل الرحمن کا دھرنا ہے۔

اوّل الذکر دھرنے والوں کا مطالبہ اس وقت کے وزیراعظم کا استعفی تھا۔ ان کے مطابق 2013 کے الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کرکے اُن کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ جس کا فائدہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کے لیے انہوں نے ہر فارم سے رجوع کیا۔ کسی طرف سے بھی سنوائی نہ ہونے پر آخری آپشن کے طور پر دھرنا دینا ہی اِن کے پاس بس حل رہ گیا تھا۔ اس دھرنے میں تمام جماعتیں حکمران جماعت کے ساتھ تھی اور یہ اکیلے اپنے مقصد کو لے کر چل رہے تھے۔

موخر الذکر والوں کا بھی قریب قریب یہی مطالبہ تھا۔ اس دھرنے میں آگے آگے تو مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت تھی۔ لیکن انہیں اپوزیشن کی نو کے قریب پارٹیوں کی اخلاقی حمایت حاصل تھی۔ بقول ان کے یہ دھرنا ایک تاریخ ساز دھرنا ہو گا۔ اسے پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک اہم اور فیصلہ کن دھرنا قرار دیا جا رہا تھا۔ اسے ایسا تقدیر ساز لمحہ قرار دیا جا رہا تھا جو پانچ برس میں ایک بار آتا ہے

لیکن جو بھی ہے دونوں دھرنوں کا اختتام ایک جیسا ہی ہوا ہے۔ کیونکہ دونوں دھرنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں دھرنوں میں واپسی پر دونوں دھرنے والی پارٹیوں کے ہاتھ میں عزیمت اور منہ چھپانے کے سوا کچھ نہیں آیا۔

دونوں دھرنوں کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایک داد مولانا صاحب کی جماعت کو دینا بنتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ کراچی سے چل کر ملک کے دارالحکومت میں داخل ہوئے لیکن اس بیچ ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ لاہور میں جلسہ ہو رہا تھا اور دن بھر کام کاج کی مشقت سے تھکے ہارے لوگ میٹروبس بھی بیٹھے گھروں کو واپس جاتے ہوئے کھڑکیوں سے وزیراعظم کا استعفی لینے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔

عمران خان ایک سو چھبیس دن تک وزیراعظم کا استعفی لینے کے لیے پارلمینٹ کے سامنے بیٹھے رہے تھے۔ اسی دوران سرکاری ٹی وی پر حملہ ہوا۔

آخر پر دونوں دھرنوں کا انجام ایک جیسا ہوا۔ نہ خان صاحب ایک سو چھبیس دنوں میاں صاحب کا استعفی لے سکے تھے اور نہ ہی مولانا صاحب تیرہ دنوں میں خان صاحب کا استعفی لے سکے ہیں۔ نہ اُس وقت خان صاحب کو فیس سیونگ ملی تھی اور نہ ہی اب مولانا صاحب کو فیس سیونگ کے لیے کچھ ملا ہے۔

اس بات پر خان صاحب کو داد دینا بنتا ہے کہ ایک سو چھبیس دن تک فیس سیونگ کے لیے کچھ نہ ملنے پر بھی خالی کرسیوں سے خطاب کرتے رہے تھے۔ اللہ کی کرنی کہہ لیں یا سیکورٹی اداروں کی ناکامی پشاور میں ایک دردناک سانحہ پیش آ گیا۔ جس کی آڑ میں خان صاحب بھی اپنا دھرنا سمیٹ کر چلتے بنے۔ کیونکہ ہمت تو اُن کی بھی بہت پہلے ہی جواب دے چکی تھی۔ اس دھرنے میں مولانا پلان بی کی آڑ لیتے ہوئے اس دھرنے کو چھوڑ کر چل دیے ہیں۔

دونوں دھرنوں میں دونوں حکومتوں کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ میاں صاحب کی حکومت نے خان صاحب کے دھرنے سے پہلے ہی شہر شہر کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی، کنٹینر لگا کر شہر بند کئیے۔ خان صاحب کے دھرنے کو حکومتی جماعت کے حمایتوں کی جانب سے ہر شہر میں نشانہ بنایا گیا۔ قافلے ہر شدید قسم کا پتھراؤں کیا گیا۔

اس کے برعکس خان صاحب کی حکومت نے نہ صرف دھرنے کو شہر اقتدار تک آنے کا کھلا راستہ دیا۔ بلکہ حکومتی جماعت کے کارکنوں نے بھی دھرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی اور بدتہذیبی نہیں کی۔

اب اس دھرنے کے اختتام پر رواری حکومت کے لے بظاہراً چین ہی چین لکھتا ہے۔ جبکہ خان صاحب کے دھرنے کے بعد بھی میاں صاحب کی حکومت کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی گئی تھی۔ یہ مشکلات میاں صاحب کی برطرفی کے بعد بھی رکی نہیں تھی۔

اب دیکھنا ہے مولانا کا خاموشی سے رات کے پہر سامان لپیٹ کر واپسی کا راستہ لے لینا۔ کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ یا خان صاحب آرام اور سکون سے اپوزیشن پر ماحول تنگ کرتے ہوئے پانچ سال پورے کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).