کیا عمران خان فوج کی غلطیوں کا حساب بھی مانگیں گے؟


آج وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات ہوئی جس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم نے سرحدوں کی حفاظت کرنے اور موجودہ سماجی معاشی ترقی کے لئے داخلی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے پر پاک فوج کی توصیف کی‘۔ ملک کی داخلی سلامتی اور دفاع کے سوال پر ہونے والے اس اجلاس کی مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے اس سے پہلے اسلام آباد میں ہی ’امن و خوشحالی‘ کے موضوع پر سیمینار کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ چالیس برس کے دوران پاکستان کی ’غلط خارجہ پالیسی‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے اور واضح کیا تھاکہ پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ اب ہم دوسروں کی جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ صرف ثالثی اور مصالحت کا کردار ادا کریں گے۔ ان غلطیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عمران خان نے اسّی کی دہائی میں لڑی جانے والی افغان جنگ اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں حصہ لینے کا حوالہ بھی دیا۔ وزیر اعظم نے ماضی میں کئے گئے ان دو اہم فیصلوں کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ ان فیصلوں کے نتیجہ میں ملک میں ڈالروں کی ریل پیل تو ہوگئی لیکن پرائی جنگ میں حصہ لینے سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ، ان کے نقصان کا جائزہ ابھی تک نہیں لیا جاسکا۔
وزیراعظم کے اس واضح بیان کی روشنی میں یہ سمجھنا نامناسب نہیں ہوگا کہ اگر وہ ماضی میں اختیار کی گئی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے منفی اثرات سے باخبر ہیں اور ان کا برملا اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ان کی حکومت کی پالیسی کو اس سے علیحدہ حکمت عملی سمجھا جائے تو وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ پرائی جنگ میں حصہ داری والی پالیسی دو سابق فوجی آمروں یعنی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے قوم پر مسلط کی تھی۔ عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے کا اعلان کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی وہ یہ بتانے میں شرمساری محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کے بعض سخت گیر فیصلوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ملک میں ریاست مدینہ کا انصاف اور مساوات متعارف کروارہے ہیں۔ اسی مساوات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ اہم سیاسی لیڈروں سے جیل میں تمام سہولتیں واپس لینے کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور اب نواز شریف پر واضح کردیا گیا ہے کہ اگر وہ بیرون ملک علاج کروانا چاہتے ہیں تو مالی ضمانت دینے کے بعد ہی ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جاسکتا ہے۔
عمران خان ملک کی معاشی تباہی کا ذمہ دار سابقہ سیاسی حکمرانوں کی مالی کرپشن کو قرار دیتے ہیں اور کسی واضح عدالتی فیصلہ سے قبل ہی نواز شریف ہو یا آصف زرداری، عمران خان کی فہرست میں وہ لٹیرا اور چور قرار پاچکا ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ گزشتہ دس برس کے دوران جو بیرونی قرضے لئے گئے تھے، وہ ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود پر صرف نہیں کئے گئے بلکہ انہیں لوٹ مار کے ذریعے حکمرانوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں منتقل کردیاگیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان قرضوں کی ادائیگی پاکستانی قوم کو کرنا پڑرہی ہے جبکہ لٹیرے عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی مشکل کی وجہ سے عمران خان کو اپنے اقتدار کی مختصر مدت میں اتنے زیادہ قرضے لینے پڑے کہ سابقہ ادوار کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ لٹیرے لیڈر قوم کی دولت لے کر چلتے بنے اور اب ان قرضوں کو ادا کرنے کی ذمہ داری موجودہ ’شفاف‘ حکومت کے سر آپڑی ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم نے گزشتہ ایک دہائی میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں کی تحقیقات کرنے کے لئے اپنی نگرانی میں ایک کمیشن بھی قائم کیا تھا۔ بدنصیبی سے اس کمیشن کے قیام کے بعد اس کی کارکردگی کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔
وزیر اعظم کے ان دعوؤں کی روشنی میں ہی چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق یہ استفسار کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے کہ اپنی بیان کردہ پالیسی اور گزشتہ چالیس برس کے دوران پرائی جنگوں میں شریک ہو کر ملک و قوم کو بے حساب نقصان پہنچانے والے ادارے سے بھی پوچھ لیا جائے کہ ایسی پالیسی کیوں اختیار کی گئی جس کے مالی اور سماجی اثرات
کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکا۔ اقوام متحدہ کی تقریر میں عمران خان نے ہی اس نقصان کا ایک تخمینہ ایک سو ارب ڈالر سے متجاوز مالی نقصان اور 70 ہزار شہادتوں کا ذکرکرکے پیش کیا تھا۔ اس لئے یہ سوال کرنا جائز اور درست ہے کہ عمران خان جیسا دبنگ اور صاف گو لیڈر فوج سے بھی اس کی غلطیوں کا حساب مانگے گا۔ آج ہی آرمی چیف نے وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس اہم ملاقات کے حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس کا اعلامیہ مختصر اور مبہم ہے۔ اس لئےیہ کہنا مشکل ہے کہ چالیس سال کے دوران ملک کو دو جنگوں میں ملوث کرکے غیر معمولی نقصان کے حوالے سے انہوں نے کچھ ٹھوس سوالات جنرل صاحب کے سامنے رکھے ہوں اور ان کا جواب طلب کیا ہو؟
عمران خان نے جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا میں امن و ترقی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز ہی جنگوں کی بجائے پاکستان کے مصالحانہ کردار اور ثالثی کو خارجہ پالیسی کی بنیاد بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس لئے یہ قیاس کرنا بھی اہم ہے کہ سیاسی لیڈروں کو کیفر کردار تک پہنچانے والے وزیر اعظم فوجی حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اب فوجی قیادت کو اس بات کا پابند کریں گے کہ ماضی میں فوج نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر جو غلطیاں کی تھیں، ان کا مکمل جائزہ لیا جائے اور ان فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو سامنے لایا جائے تاکہ موجودہ فوجی لیڈروں پر یہ واضح ہو کہ پرائی جنگ اور پرائے کام میں ٹانگ اڑانے کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
وزیر اعظم قومی وسائل اور بدعنوانی کے معاملہ میں چونکہ جذباتی حد تک حساس ہیں اس لئے انہیں یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا معاشی پہلو بھی ہے۔ وزیر اعظم نے سیمینار میں کی گئی تقریر میں اس کا بالواسطہ حوالہ دیا ہے۔ لیکن کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ جب احتساب اور ذمہ داری کے تعین کی بات چل ہی نکلی ہے تو عمران خان اس حوالے سے بھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیں۔ یہ طے کرلیا جائے کہ امریکہ سے آنے والے ڈالروں کا حقیقی حجم کیا تھا اور ان کو کس نے کس مقصد کے لئے صرف کیا۔ کیا قربانیاں دینے والی قوم کو بھی اس میں سے کچھ حصہ ملا یا زیادہ تر ڈالر فوجی حکمرانوں کی بے اعتدالیوں کی ہی نذر ہوگئے؟ یادش بخیر عمران خان سے دوستی کرنے سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہی ڈالروں کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا حجم 33 ارب ڈالر بتاتے تھے بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان نے وہ ’خدمات‘ بھی سرانجام نہیں دیں جن کے عوض یہ ڈالر فراہم کئے گئے تھے۔ ٹرمپ کے بقول پاکستان امریکی لیڈروں کو بے وقوف بناتا رہا تھا۔ اس سال جولائی میں جب ٹرمپ سے دوستی کو پکا کرنے کے لئے عمران خان وہائٹ ہاؤس پہنچے تھے تو امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو اس سلسلہ میں ضرور کچھ مزید تفصیلات بھی بتائی ہوں گی۔
اپوزیشن عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا ’نامزد کردہ ‘ قرار دے کر ان کے انتخاب سے انکار کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ بھی دراصل اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ وہ اسلام آباد سے تو بخیر و عافیت چلے گئے ہیں لیکن اب ملک بھر کی شاہراہیں بند کرکے اور احتجاج کے ذریعے حکومت کو عاجز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ عمران خان نے واضح کردیا ہے کہ ان کے استعفیٰ پر بات نہیں ہوسکتی ، کوئی دوسری بات ہو تو غور کیا جاسکتا ہے۔ اس انکار کی وجہ بھی سادہ ہے۔ عمران خان خود کو عوام کا منتخب نمائندہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ فوج نے انہیں آگے نہیں لگایا بلکہ فوج ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے یعنی ان کے تابع فرمان ہے یا ان کی پشت پر ہے۔
وزیر اعظم کا یہ دعویٰ ضرور سو فیصد درست ہوگا لیکن وقت سے کئی ماہ پہلے آرمی چیف کے عہدے میں اچانک توسیع اور تحریک انصاف کی حکومت کو فوجی حکومت کا سول چہرہ بنانے کے عمل نے ، سیاسی دشمنوں کو اس دعوے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موقع دیا ہے۔ بدقسمتی سے دو بڑوں کے درمیان آج ہونے والی ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہاؤس نے صرف ایک سطری بیان دینا ہی کافی سمجھا حالانکہ عوام اپنے دیانت دار اور جری وزیر اعظم سے مزید تفصیلات سننا چاہتے ہیں۔ عمران خان اگر فوج سے ماضی کی غلطیوں اور ڈالروں کے اصراف کا حساب لیں گے تو دشمن بھی ان کی اتھارٹی تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں سرحدوں پر لاحق خطرے کے علاوہ داخلی سیکورٹی کے مسئلہ پر بھی بات کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے بعد اب شاہراہیں بلاک کرنے اور احتجاج کو وسیع کرنے سے یقیناً اسی سوشل معاشی ترقی کے ماحول کو نقصان پہنچے گا جس کا حوالہ وزیر اعظم ہاؤس کے اعلان میں دیا گیا ہے۔ عمران خان سیاسی دشمنوں کو یہ سمجھنے کا موقع نہ دیں کہ انہوں نے اس احتجاج سے نمٹنے کے لئے فوج سے مدد لینے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے اس ملاقات کی تفصیلات سامنے آنا ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ حکومت صرف سیاست دانوں کو ٹارگٹ کرنے کے مشن پر گامزن نہیں ہے۔ اس کا ہدف قوم کی بہبود اور ترقی ہے۔ اس کے لئے غلطی کرنے والا ہر شخص اور ادارہ اس کے نشانے پر ہوگا۔
بلند بانگ دعوؤں کے بعد وزیر اعظم اگر اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کا بھرم نہیں رکھتے ۔ اور وہ صرف اپنی حکومت کی اعانت و حمایت کے لئے ہی آرمی چیف سے ملے تھے تو پھر ماضی اور حال کا فرق کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر ایماندار لیڈر، بدعنوانوں سے بھی زیادہ مجبور نکلا تو پاکستانی عوام کس مسیحا کا انتظار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali