پانچ کروڑ پاگلوں میں سے ایک شکایت کرتا ہے


\"husnain

جب مسائل اور پریشانیاں حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو بعض انسان ایک اپنی ایک خیالی دنیا بنا لیتے ہیں۔ خیالی پلاؤ بنانا یا ہوائی قلعے تعمیر کرنا بھی اسے کہا جا سکتا ہے۔ انہیں اس دنیا سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو بہت مشکل سے وہ باہر نکل پاتے ہیں۔ بچوں کی مثال لیجیے۔ پچھلے دنوں پنجاب کے ہر شہر میں بچوں کے اغوا کی خبریں تواتر سے آ رہی تھیں، لوگ پریشان تھے۔ ہماری نسل شاید آخری تھی جو گلیوں میں کھیل کود کر بڑی ہو گئی۔ تو وہ لوگ جو پریشان تھے انہوں نے بچوں پر یقیناً مزید پابندیاں لگائیں اور بچے گھروں کے ہو کر گئے۔ پہلے بھی صورت حال کچھ بہتر نہیں تھی۔ ایسے میں بچوں کے لیے دو مصروفیات رہ گئیں۔ ٹی وی دیکھیں یا ویڈیو گیم کھیلیں۔ ٹی وی پر کارٹون اور ویڈیو گیم میں خاص طور پر ایکشن گیمز بچوں کو خیالی دنیا بنانے میں مدد دیتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ ڈورے مان، سپائیڈر مین یا سپر مین کو اپنا قریبی دوست سمجھتے ہوئے ہر وقت انہیں کے خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں اور عام زندگی کے مشکل کام مثلاً ہوم ورک وغیرہ میں بھی ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ڈورے مان آئے اور کھٹ سے سب کا سب کام ختم کروا دے۔

بڑوں کی بات کیجیے تو پاکستان میں مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کے اکثر لوگ آپ کو گھر آتے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھے ملیں گے، وہیں کھائیں گے، وہیں پئیں گے، وہیں پڑے پڑے سو جائیں گے۔ ایسا کیا ملتا ہے ٹی وی پر؟ ٹی وی پر فرار ملتا ہے۔ دن بھر کی پریشان کن سوچوں سے فرار، دکان کی الجھن سے فرار، مستقبل کی سوچ سے فرار، اولاد کی فرمائشوں سے فرار، ازدواجی تلخیوں سے فرار، مالی پریشانیوں سے فرار، عدم تحفظ کے لمحہ بہ لمحہ بڑھتے مسائل سے فرار، کیوں کہ ٹی وی وہ تمام سوچیں پس پشت ڈال دیتا ہے اور جو دکھایا جا رہا ہوتا ہے، انسان اسی سے چپک کر رہ جاتا ہے۔

ہماری انٹرٹینمنٹ کی ترجیحات بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوئیں۔ پہلے ٹی وی پر انتہائی معیاری ڈرامے ہوتے تھے جو کتاب نہ پڑھنے والوں کو بھی انتہائی سلجھی ہوئی تفریح مہیا کرتے تھے۔ بے جا گلیمر اور ساس بہوؤں کے مسائل نہیں ہوتے تھے۔ کہانی پائی جاتی تھی اور کہانی کے پر پیچ راستوں پر دیکھنے والا کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔ سن دو ہزار کے بعد ہماری ترجیحات میں آہستہ آہستہ خبریں زیادہ اہم ہوتی گئیں، بریکنگ نیوز بڑھنا شروع ہو گئیں، تبصروں کی تعداد بڑھی، ٹاک شوز کا رجحان شروع ہوا اور اب چند ایک کے علاوہ تمام ٹاک شوز اگلے وقتوں کے مناظروں کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔ لوگ بھی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ان میں ہوتا کیا ہے؟ کیا کشمیر کے مسئلے پر گرما گرم پروگرام دیکھنے سے یا بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک پر عالمانہ گفتگو سننے سے یا سی پیک کی ترجیحات جاننے سے یا الطاف حسین کو بھارتی ایجنٹ ثابت ہوتا دیکھنے سے یا عمران خان کے دھرنوں کی ناکامی پر گفتگو سے یا اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات جان لینے سے کیا لوگوں کے ذاتی مسائل حل ہو جائیں گے؟

وہ مسائل جنہیں ہم مائیکرو لیول کے مسائل کہتے ہیں اور جن پر اخباروں کے اندرونی صفحات میں یک کالمی خبریں لگتی ہیں وہی ہمارے اصل مسائل ہیں۔ وہ کبھی حل نہیں ہوتے، ان کے لیے کوئی بات نہیں کرتا۔ وہ مسائل ایک انسان کو ذہنی پریشانی سے لے پاگل پن کی سرحدوں تک لیے گھومتے ہیں اور پھر ایک دن خبر ملتی ہے کہ پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔

پڑھنے والا پڑھ لیتا ہے لیکن خبر بھولتا نہیں۔ ایک دو روز بعد اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان پانچ کروڑ میں سے آخری انسان وہ خود ہے۔ وہ ہر وقت کا شور پسند نہیں کرتا، اسے زیادہ ٹریفک پریشان کرتی ہے، وہ مالی مسائل میں مبتلا رہتا ہے، اسے رات گئے گھر واپس آتے ہوئے سواری چھن جانے کا دھڑکا ہوتا ہے، وہ اے ٹی ایم سے پیسے نکالتا ہے تو نکلتے ہوئے چاروں طرف دیکھ کر نکلتا ہے، اسے بجلی کا بل مار دیتا ہے، گیس پینتیس فی صد مہنگی ہوتی ہے اور تنخواہ کا متوقع اضافہ پانچ فی صد بھی نہیں دکھتا، پیٹرول ڈلواتا ہے تو ٹیوننگ کی فکر میں مرتا ہے، ٹیوننگ کرواتا ہے تو پلگ شارٹ ملتے ہیں، پلگ ڈلواتا ہے تو سواری کہیں لگ جاتی ہے، موبائل کا بل پندرہ سو روپے ہو تو ہزار کے ٹیکس اسے پڑتے ہیں، وہ ٹی وی خریدنے جاتا ہے تو مہنگائی کا احساس ہوتا ہے، بچوں کو تعلیم دلوانے کا سوچے تو ایک ماہ کی فیس میں چالیس انچ کا ٹی وی ملتا نظر آتا ہے۔ وہ اونچے ہوٹل میں جاتا ہے تو پریشان رہتا ہے، وہ کسی چھپڑ ہوٹل پر بیٹھتا ہے تو پریشان رہتا ہے، کہیں اوقات سے باہر ہوتا ہے کہیں حالات میں گرفتار ہوتا ہے۔ لان کا سوٹ ڈی وی ڈی پلئیر سے مہنگا نظر آتا ہے، جوتے کتابوں سے زیادہ مہنگے دکھائی دیتے ہیں اور کتابیں کھانا کھلانے کا وعدہ نہیں کرتیں۔ اسے ہر گھڑی وقت ضائع ہونے کا احساس رہتا ہے، وہ نوکری سے وقت بچا کر گھر کے کام کرتا ہے گھر کے کام چھوڑ کر نوکری کرتا ہے اور دونوں کام کرنے کے بعد بھی نیند نہیں آتی تو پھر کتاب پڑھتا ہے، یا وہی، ٹی وی دیکھتا ہے۔ نیند کیسے آ سکتی ہے، نیند کسے آ سکتی ہے؟

وہ دیکھے گا کہ ہسپتالوں میں دواؤں کی گولیوں سے زیادہ مریض ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ اب تو لوگ نہیں شناختی کارڈ قتل ہوتے ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ منصف انصاف چھوڑ کر سیاست بازی چاہتے ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ گولی ایک چاولوں کی پلیٹ سے زیادہ سستی ہے تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ مقدمے موت کے بعد فیصل ہوتے ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ خبر قید ہوتی ہے اور دعوے کھلے عام گھومتے ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ بیٹیاں قتل ہوتی ہیں اور بیٹے سپھل ہوتے ہیں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ محنت میں عظمت کی بجائے راحت میں عظمت ہے تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ لفظ سولی چڑھیں اور اور کورے صفحے کھنکتے پھریں تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ تیزاب دو سو روپوں کا ہے اور عذاب بیس ہزار سے زیادہ دنوں کا، تو اسے نیند آئے گی؟
وہ دیکھے گا کہ سڑکیں صحت اور تعلیم کی بجری سے بنتی ہیں تو اسے نیند آئے گی؟

تو جب اسے نیند نہیں آئے گی تو وہ دماغی مسائل کا شکار ہو گا۔ اور جب وہ دیکھے گا کہ ان پانچ کروڑ میں آخری وہ خود ہے اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے صرف چار سو ڈاکٹر اس کے ملک میں ہیں، تو وہ پاگل رہنے کو ترجیح دے گا۔ اسے بجلی کے بلوں کی قطاروں، پینشن لینے کی قطاروں، ٹریفک کی قطاروں اور ہسپتالوں کی قطاروں میں کھڑے رہنے سے فرصت ہی نہیں ہو گی تو وہ ایک نئی قطار کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے۔ وہ قطار جس میں اس کا نمبر ایک لاکھ، چوبیس ہزار نو سو ننانوے لوگوں کے بعد آئے گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments