کالام سے گلگت تک


کالام کی صبح بھی بڑی منفرد ہے، نیلا صاف آسمان، برف سے ڈھکے پہاڑی چوٹیاں، قسم قسم کے درختوں پر مشتمل جنگل اور آنکھ ملاتی ٹھنڈی سورج اپنی تازگی، خوشگوار فضاء اور کالی رات کے کاٹنے آثار کی بدولت نئی جہت عطاء کرتی ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ عزیز ہوتی ہے۔ درجہ حرارت بہت گرا ہوا پایا، پھر بدبختی کہ ہوٹل کے اکثر کمروں میں گرم پانی میسر نہیں ہے ان میں ایک کمرہ ہمارا بھی ہے۔ ہاتھ منہ دھوکر سب سے پہلے امین ضیاء صاحب کے کمرے کا پتہ پوچھ لیا۔

ریلیکس کاٹیج ہوٹل ایک کشادہ ہوٹل ہے اور کمروں کی تعداد بھی کافی ہے۔ امین ضیاء صاحب اور احسان علی دانش صاحب کے کمرے کی طرف روانہ تھا کہ سامنے نور ضیاء کھڑے تھے، نور ضیاء نے انتہائی حیرانگی کے عالم میں ملاقات کی اور مجھے باہر چھوڑ کر ’بوبابوبا‘ کہتے ہوئے والد کو خبر کرنے نکلا۔ امین ضیاء صاحب کے اولاد میں سب سے آخری نمبر نورضیاء کا ہے۔ اتنے میں امین ضیاء صاحب بھی صحن میں تشریف لے آئے جبکہ ان کے ساتھ ہی احسان دانش بھی وارد ہوئے۔

دونوں انتہائی ٹھاٹھ باٹھ، کپڑوں پر استری اور جوتوں پر پالش کیے اچھے موڑ میں تھے۔ احسان علی دانش کی طرف سے ہمارا مختصر تعارف ہوا، ’تکثیریت کے مکالمے‘ کے لئے کافی وقت باقی تھا، شرکاء کی آمد جاری ہے، ہمارے میزبان زبیر توروالی صاحب نے ناشتہ سے قبل ہی اس بات پر معذرت کرلی کہ بعض کمروں میں گرم پانی نہیں مل سکا ہے۔ میں اس دوران باچا خان ایجوکیشنل ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب ڈاکٹر خادم حسین کے ساتھ کالام کے فطری نظاروں کے لئے صحن میں بیٹھارہا اور مختلف موضوعات پر گفت و شنید ہوئی۔ ہمارا تعارف کم از کم ایک تقریب قبل کا ہے۔

’تکثیریت کے مکالمے‘ کے لئے کم از کم تیس لسانی کمیونٹی نمائندے شریک ہوئے۔ امین ضیاء صاحب کی قیادت میں گلگت بلتستان سے شینا زبان (داردک) اور بلتی (تبتی) کا قافلہ موجود تھا۔ چترال سے تعلق رکھنے والے اکثر نمائندے انتہائی عقیدت کے ساتھ امین ضیاء صاحب سے ملاقات کرتے۔ اس دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ چترال کے سرحدی علاقے میں بولی جانے والی زبان ’پلولہ‘ (داردک) کم از کم 80 فیصد شینا زبان پر مشتمل ہے، پلولہ کے نمائندے سے جتنی گفتگو ہوئی اس کا بیشتر حصہ مقامی بولیوں میں ہی رہا۔

سیمینار کی روداد ’مکالمے کا فروغ، وقت کی اہمیت‘ کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ سیمینار کے آخر میں ہم ڈاکٹر شعیب کے تایا (غالباً) کی تعزیت کے لئے نکلے۔ ڈاکٹر شعیب کی تعیناتی اس وقت ہنزہ میں ہے اور وہاں کے ڈی ایچ او امین ضیاء صاحب کے فرزند زعیم ضیاء تھے (اب تبادلہ ہوا ہے ) ۔ شاید یہ کالام کا دستور ہے کہ دعائیہ تقریب صرف مسجد میں ہی منعقد ہوتی ہے۔ جس مسجد میں دعا کے لئے گئے وہ صدیوں پرانی ہے، مسجد کی عمارت ایک شاہکار ہے، اس مسجد کی تعمیر کے لئے صرف ’دیار‘ کی لکڑی استعمال کی گئی ہے، مسجد کے ستونوں کی لمبائی نے حیرت میں ڈبودیا کہ دیار کی لکڑی سے اتنے بڑے ستون کیسے بن گئے اور وہ درخت کتنا اونچا ہوگا جس کے ایک پٹے سے یہاں پر ستون کھڑا کیا ہے، مسجد میں کم از کم تین ستون تقریباً سو فٹ کے ہیں۔

ہنزہ میں اپنی طبی ذمہ داریاں نبھانے والے ڈاکٹر شعیب نے بھرپور خاطر مدارت کی، ڈاکٹر شعیب کے حجرے میں ہمارے ساتھ گلگت بلتستان میں موسیقی کی دنیا میں اپنی پہچان رکھنے والے استاد میرافضل بھی موجود رہے، تاہم ڈاکٹر شعیب کے گھر میں فوتگی ہونے کی وجہ سے ہم ان کی دھنوں سے محظوظ نہیں ہوسکے تاہم لسانی امور پر انتہائی سیرحاصل گفتگو ہوئی، کالام کے علاقے میں پائی جانے والی زبانیں بھی شینا کے ساتھ بڑا تعلق رکھتی ہیں، اور اکثر زبانیں درد لسانی قبیلے کی ہیں۔

سیمینار کے اگلے روز علی الصبح ہم گلگت کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل خوازہ خیلہ تھی کہ ہم ٹائٹ ناشتہ کرسکیں۔ متعدد ہوٹلوں پر کار روکنے کے باوجود سالار قافلہ کی طبیعت مطمئن نہیں ہوئی جس کی وجہ سے کئی ہوٹلوں کا ویسے ہی دورہ کرلیا۔ البتہ جہاں ناشتہ کیا وہاں پر سب سے یک زباں ہوکر بولا کہ ’دیر آید درست آید۔ سوات پہنچتے ہی گاڑی کے لئے چند سامان خریدنے کی حاجت ہوئی، قطاروں میں کھڑی گاڑیوں کے مانند رش کی وجہ سے وقت کافی ہوا۔

البتہ سوات کے اس مارکیٹ سے آشنائی ہوئی جہاں جاکر جی بی کے اکثر لوگ لٹ کر آتے ہیں۔ سوات بازار کے اکثر ہوٹلوں کے نام گلگت بلتستان اور مختلف اضلاع کے نام سے ہیں، ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ یہی وہ ہوٹل ہیں جو مسافروں کولوٹتے ہیں۔ گاڑی کے لئے شاپنگ کے دوران گاڑی کے پچھلی نشست پر میں اور احسان دانش صاحب نے منٹو کا حال ہی میں شائع ہوا افسانہ ’گلگت خان‘ مکمل کرلیا اور کئی موضوعات پر گفت و شنید ہوئی۔

قافلہ آگے بڑھتا گیا، سوات میں خزاں بھی اپنے جوبن پر ہے، امین ضیاء صاحب جدید کیمرے کی مدد سے ہر دلکش منظر کو محفوظ کرتے گئے ہم یونہی نقالی میں موبائل کو شیشے سے باہر نکالتے گئے، نوراپنی لائن سیدھی کرتا گیا اور احسان دانش مجھ پر غصہ ہوتا رہا۔ تاہم گزشتہ سفر کی جو گفتگو ہوتی رہی اس سے مجھے استثنیٰ حاصل تھا۔

شام کے چار بجے کے قریب ہم بشام پہنچے جہاں نیٹکو اڈہ کے ساتھ ہی موجود پٹرول پمپ میں نورضیاء کے کزن منیجر ہیں۔ چار مسافروں میں سے تین کی شدید خواہش تھی کہ گلگت روانہ ہوجائیں گے تاکہ اگلی صبح دوبارہ گلگت میں دیکھ سکیں، لیکن میرکارواں نے فیصلہ کرلیا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے بشام سے گلگت روانہ ہوں گے تو راستے میں صاف ستھرے ہوٹلوں کی کمی ہے لہٰذا یہی ٹھہرتے ہیں۔ ہم تینوں نے باری باری اپنا پتہ پھینک کر امین ضیاء صاحب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ سفر جاری رکھتے ہیں لیکن تمام پتے ضائع گئے۔

احسان علی دانش صاحب کی داڑھی نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی واک کرنے کے بہانے بشام بازار کی یاترا پر نکلے اور اصل ہدف زیرو مشین لگواکر واپس آگئے۔ ہمارے ڈرائیور کے فرائض سرانجام دینے والے نور بھائی اور احسان علی دانش کو موبائل پر کوئی نہ کوئی ستاتا رہتا ہے، وہ بار بار موبائل کان پر لگاکر یوں سائیڈ ہوجاتے جیسے گلگت میں ان کا کاروبار تباہ ہورہا ہے، دانش صاحب کا تو پتہ نہیں چلا البتہ نور اپنے چھوٹے بیٹے کی یاد میں بڑا پریشان تھا۔ بشام پل کے ساتھ موجودہوٹل اور ساتھ میں واقع پٹرول پمپ کے دالان میں رات گئے تک کانفرنس کے تینوں شرکاء نے ایک ایک پوائنٹ پر خوب غور و خوض کیا، ایک شریک محفل کو اب بھی صرف گاڑھی باتیں یاد آرہی تھی۔

اگلی صبح سویرے بشام سے گلگت روانہ ہوگئے۔ اس روز یکم نومبر یعنی گلگت بلتستان کی جشن آزادی بھی منائی جارہی تھی۔ دو شعراء کے ہمراہ اس بات کا فیصلہ کرلیا گیا کہ چلاس پہنچتے ہی ہم جشن آزادی کا مشاعرہ ’لائیو‘ کریں گے، تاہم چلاس کے میزبانوں کی عدم دستیابی اور امین ضیاء صاحب کی طبیعت کی گرانی کی وجہ سے مشاعرہ منسوخ ہوگیا۔ بشام سے سفری دعا پڑھ کر روانہ ہوئے اورصبح سورج کے کرنوں کے ساتھ ہی ٹیپ بھی آن ہوگئی لیکن متعلقہ ٹریک نہیں مل سکا، نور ڈرائیونگ سیٹ میں براجمان ٹریک تبدیل کیے جارہے ہیں، تجسس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ امین ضیاء صاحب کا شینا کلام ڈھونڈرہے ہیں، جب سنا تو پھر اندازہ ہوا کہ کلام بھی کیا خوب ہے، کلام کے مقطع کا اردو ترجمہ یوں بن سکتا ہے کہ

تیری محفل میں جب ضیاء اٹھتا ہے سنانے کو

سبھی موجود شعراء وہاں، تتر بتر ہوجاتے ہیں

اس پورے سفر میں انڈیا کے مرحوم گلوکار محمد رفیع اور کچھ پرانے شعراء کا راج رہا، مجال ہے کہ کوئی کلام سُر کے ساتھ دانش صاحب کو یاد نہ ہوں، تیری الفت میں صنم دل نے بہت درد سہے، کلام میں میرا دانش صاحب سے مناظرہ ہوا کہ اس کی گلوکارہ کون ہے، انٹرنیٹ کی دستیابی پر تحقیق کیا اور احسان دانش کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھر گئی۔

داسو سے گلگت تک تقریباً ڈرائیونگ سیٹ پر شدید اختلاف رہا، نوربھائی جب بھی کہیں پر گاڑی روک لیتے تو فرنٹ سیٹ سے امین ضیاء صاحب ڈرائیونگ سیٹ پر آجاتے اور احسان دانش انہیں ’کمپنی‘ دینے فرنٹ سیٹ پر پہنچ جاتے۔ امین ضیاء صاحب عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اس کے باوجود تقریباً آدھا راستہ انہوں نے گاڑی ڈرائیو کیا البتہ اس دوران فرنٹ سیٹ پر بائیں جانب کھائی دیکھ کر، اور قریب سے موڑ کاٹتی گاڑی میں احسان دانش صاحب کا جو حال رہا اس کے عینی گواہوں میں میرے علاوہ نور بھائی بھی ہیں۔ گلگت پہنچتے ہی یادگار چوک میں پیپلزپارٹی کی جشن آزادی کی ریلی نے ہمارا استقبال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).