شخصیت کے بناؤ یا بگاڑ میں بچپن کے تجربات کی اہمیت


عموما لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ تجربہ اچھا ہو یا برا کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے کچھ کا ماننا ہوتا ہے کہ برے تجربے ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔ چلیں ہم ارلی چائلڈ ہڈ ایکسپیرئینسز یا ابتدائی بچپن کے تجربات سے شروع کرتے ہیں۔ یعنی اوائل بچپن کے تجربات۔ نفسیات دانوں کا ماننا ہے اور اس ماننے کی وجہ ”تجربات“ سے حاصل شدہ نتائج ہیں کہ بچے رحم مادر میں ہی بہت سے تجربات سے سیکھنا شروع کر دیتے ہیں پرسکون ماحول میں پرسکون رہنے والی ماں کے جسم میں پرورش پانے والے بچے زیادہ صحت مند اور پرسکون شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔

اسی لیے ماں کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں پہ توجہ دی جاتی ہے۔ یعنی ہمارے اس دنیا سے متعلق سب سے پہلے تجربے کا مثبت ہونا ضروری ہے۔ جیسے جیسے بچہ/بچی بڑا ہوتا جاتا ہے وہ وہی سب کچھ سیکھتا جاتا ہے جو اس کے اردگرد ہو رہا ہو۔ یعنی تجربہ کار ہوتا جاتا ہے۔ مگر یہ تجربے اس کی شخصیت پہ کیا اثر ڈال رہے ہیں؟ نئی تحقیق کی بنیاد پہ یہ مانا جاتا ہے کہ اگر بچے /بچی کو شدید ذہنی دباؤ والے ماحول میں رکھا جائے یعنی اصولوں پہ پابندی کی سختی ہو اس کو بار بار تنقیدکا نشانہ بنایا جائے یا مضحکہ اڑایا جائے تو بچہ/بچی کو وہی ذہنی صدمہ ہوگا جو جنگ زدہ افراد کا ہوتا ہے اور اس صدمے کو ذہنی ٹراما میں سب سے بدترین صدمے کا درجہ حاصل ہے۔ یعنی یہ غلط فہمی اب درست کر لینی چاہیے کہ تجربہ اچھا ہو یا برا ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے اور برا تجربہ ہمیں مضبوط کرتا ہے۔

ہم نے تجربے سے کیا مثبت سیکھا اس کا دارومدار اس مشکل وقت سے صرف گزر آنے پہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس تجربے کے بعد ہماری شخصیت میں کیا تبدیلی آئی اس پہ ہے۔ اگر ہم اس تجربے کی بنیاد پہ یہ سیکھتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے سہا وہ کسی اور کو نہ سہنا پڑے یہ تجربے کا مثبت اثر ہے۔ مگر جب ہم یہ سیکھ لیں کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا یہ کسی اور کہ ساتھ ہو تو کیا ہوا ہم بھی تو تکلیف سے گزرے ہماری بھی تو کسی نے مدد نہیں کی اور جب ہم پہ گزری تو دوسروں پہ بھی گزرنی چاہیے یہ تجربے کا منفی اثر ہے۔

سوال یہ آتا ہے کہ کیا یہ مثبت اور منفی اثر مثبت اور منفی شخصیت کی وجہ سے ہے یعنی جو اچھا ہے وہ اچھی بات سیکھے گا اور جو برا ہے وہ بری بات سیکھے گا جی نہیں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کی زندگی میں کتنے خوشگوار اور کتنے ناگوار تجربات گزرے۔ خوشگوار تجربات سے زیادہ تر گزرنے والے افراد ناگوار تجربات کو ہنس کر جھیلنے کی ہمت رکھتے ہیں یہ چلتے چلتے ٹھوکر لگنے جیسا ہے۔ کہ آپ کو تھوڑا برا لگے گا مگر آپ کپڑے جھاڑ کر دوبارہ چل دیں گے۔

مگر تلخ تجربات کا زیادہ سامنا کرنے والوں میں آہستہ آہستہ ان تجربات کو ہنس کر جھیلنے کی سکت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ خاص کر اگر یہ تلخ تجربات بچپن کا حصہ ہوں اور جذباتی نوعیت کے ہوں۔ اس کی صورتحال ایسی ہوگی جیسے آپ گرے سنبھلنے کی کوشش میں پھر گرے پھر اٹھے اور گرنے کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آخر کار آپ کی ہمت جواب دے جائے گی۔ ایک دو تلخ تجربات میں اپ کپڑے جھاڑ کے خود ہی کھڑے ہوجاتے ہیں مگر اگر کوئی ہاتھ پکڑ کر سنبھالنے والا ہو تو جلد سفر شروع کر سکتے ہیں حد یہ کہ کئی بار گرنے والا بھی مشکل سے سہی مگر سہارے سے دوبارہ اپنا سفر شروع کر سکتا ہے۔ یہی کچھ تلخ تجربات کے ساتھ بھی ہے آپ کے گرد حوصلہ دینے والے لوگ زیادہ ہوں تو تلخ تجربات آپ کی شخصیت پہ منفی اور دیرپا اثر نہیں چھوڑتے جبکہ اکیلے مشکلات سے گزرنے والے افراد کے منفی شخصیت کے حامل ہونے کے امکان بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ہم معاشرتی حیوان ہیں اکیلا رہنا ہماری جبلت ہی نہیں تو اچھی زندگی کے لیے اصول بنا لیں کہ ایک دوسرے کو سہارا دینا ہے تاکہ کپڑے جھاڑ کر دوبارہ سفر شروع کرنا دوسروں کے لیے بھی آسان ہو ہمارے لیے بھی۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima