دو ٹکے کی عورت اور استعمال کیا ہوا مرد


ہم ایک ایسے معاشرہ کا حصہ ہے جسے مردوں کا معاشرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں تمام اصول، قواعد، ضوابط عورتوں کے لیے بنائے جاتے ہیں اور مردوں کو ضابطوں سے آزادی حاصل ہوتی ہے یہاں اگر کسی مرد کی شادی شدہ زندگی ناکام ہوجاتی ہے تو کوئی اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہوتا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک مثبت کردار کا مالک شخص نہیں ہو اس کا رویہ بیوی کے ساتھ درست نہیں ہو جس کی بنیاد پر رشتہ ختم ہوگیا ہو بلکہ یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ عورت کے ہی کردار کو مشکوک کردیا جاتا ہے کیونکہ یہاں سب سے آسان کسی عورت کے کردارپر انگلی اٹھا نا ہوتا ہے۔

پھر سونے پر سہاگا یہ کہ ٹی وی پر عمومی طور پر وہ ڈرامے دیکھائے جاتے ہیں جس میں شوہر بیوی سے بے وفائی کرتے ہیں اور بیوی کو دنیا اس بات کا ہی درس دیتی ہے کہ وہ بچوں کی خاطر شوہر کی بے وفائی کو معمولی غلطی سمجھ کر نظر انداز کرے اور اگر وہ بیٹیوں کی ماں ہو تو اور کہا جاتا ہے بیٹیوں کے بارے میں سوچو آگے جاکر ان کے لیے رشتے حاصل کرنا ایک مرحلہ ہوجائے گا اور بیچاری بیوی اس بے وفا شوہر کے ساتھ ساری زندگی گزاردیتی ہے۔

فی الوقت خلیل الرحمن قمر کے قلم سے لکھا گیا شاہکار میرے پاس تم ہو کو ناظرین میں مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور اس ڈرامہ کہ جس مکالمہ کو حد سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ ہے دوٹکے کی عورت اس ڈرامہ کی ہیروئن کو دو ٹکے کی عورت کے خطاب سے اس لیے نوازا گیا کیونکہ اس نے بے وفائی کی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک کسی ڈرامہ میں کسی مرد کو بے وفائی کرنے پر دو ٹکے کے القاب سے کیوں نہیں نوازا گیا؟ کیونکہ وہ مرد ہے اور یہ اس کا معاشرہ ہے مگر اس کے باوجود مد مقابل ڈرامہ “دل گمشدہ” میں بیوی کی جانب سے شوہر کو “استعمال کیا ہوا مرد” کے خطاب سے بھی نوازا گیا جس کے بعد کم از کم اس بات کی تو تسلی ہوئی کہ چلو اب عورت کے بعد یہ فقرہ مرد کو بھی دیا گیا کہ جیسے وہ کہہ سکتا ہے میری استعمال کی ہوئی عورت بالکل اسی طرح مرد بھی استعمال شدہ ہوسکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مردوں کے معاشرہ میں مرد کو کیسے استعمال شدہ اور دو ٹکے کا کہہ دے حتی کہ حقیقت یہ ہے کہ غلطی، غلطی ہوتی ہے بے وفائی، بے وفائی ہوتی ہے تمام برے القابات اور برے کرداروں کا ذمہ عورتوں نے نہیں اٹھا رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).