سول ملٹری ڈیموکریسی کے ممکنہ نئے تجربات؟


پس پردہ رہتے ہوئے اپنے احکامات اپنی ہدایات پر حکومت کو ایک ڈاکخانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک کو چلانے کے طریقہ کار کو بحال رکھنے کے لئے جنرل ایوب سے لے کر آج تک بہت سے تجربے کیے ہیں لیکن ملک کی بہتری کے لئے قرار دیے گئے ان تمام تجربات کا ملک و عوام کے لئے تباہ کن ثابت ہونا طے شدہ امر ہے۔ ایک بار پھر صدارتی نظام، ٹیکنوکریٹ حکومت کی طرح کے مختلف آپشن یا ان کے مغلوبے کی باتیں کی جار ہی ہیں۔ پاکستان میں الیکشن کے انعقاد سے پہلے سے ہی سو فیصد کنٹرولڈ حکومت و پارلیمنٹ کے قیام کے لئے سو فیصد خالص پسندیدہ، منظورنظرحکومت قائم کرنے کو صرف ایک سال گزرنے پر ہی اسٹیبلشمنٹ کو ”سول ملٹری ڈیمو کریسی“ کی کوئی نئی قسم ایجاد کرنے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی گاڑی آگے نہیں بلکہ پیچھے جا رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان آئین کی مکمل پاسداری سے متعلق چند جملوں پر مبنی اپنے مطالبات کے ذریعے پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو اس کی اصل طاقت کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی شخصیت بن چکے ہیں۔ آئین کی حقیقی پیروی کے مطالبے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس طرح سے اس میں شمولیت نہیں کی جس طرح بڑی اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں کے طور پر ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ ملک کی ان دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سخت رویہ نہ اپنانے کی حکمت عملی بھی صاف ظاہر ہے۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے آئینی بالادستی کے مطالبے پر خود پلیٹ فارم مہیا نہیں کرنا تھا بلکہ مولانا فضل الرحمان کے مہیا کردہ پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ لیکن ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن پالیمانی جماعتیں ایسا نہ کر سکیں۔

سنجیدہ حلقوں میں اس بات پہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات اور جیلوں میں قید کرتے ہوئے سیاسی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ سخت تر انداز میں جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگا رکھا ہے لیکن آئین کے مطابق پارلیمانی جمہوریت کے قیام کے لئے مزاحمت ان دونوں سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے پہلے سے ہی یہ بات عام ہے کہ اس میں دو رخی حکمت عملی موجود ہے، ایک بیانیہ نواز شریف اور مریم نواز کا کہ حکومت کے خلاف سخت سیاسی روئیہ اپنایا جائے۔ دوسرا بیانیہ شہباز شریف کا کہ حکومت سے تعاون کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ اس حوالے سے شہباز شریف کے اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کو ”نوکری کی درخواست“ کے مترادف بھی کہا گیا۔ عوامی حلقوں میں یہ رائے عمومی طور پر دیکھنے میں آئی کہ بالخصوص توہین آمیز اور ہٹ دھرمی، دھونس کے حکومتی روئیے کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سخت رویے سے گریز کی حکمت عملی آئین کی بالادستی کے مطالبے کی نفی کے مترادف ہو سکتی ہے۔

مریم نواز نے جیل جانے سے پہلے مختلف شہروں میں عوامی جلسوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ تاہم اب ضمانت پر رہائی کے بعد مریم نواز کا کہنا ہے کہ سیاست کے لئے ساری عمر پڑی ہے، والدین سب سے ضروری ہیں۔ ضمانت پر رہائی کے بعد اب تک ان کی طرف سے کوئی سیاسی سرگرمی تو دور، ایک جملے پر مبنی سیاسی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ مریم نواز آئینی کی حقیقی بالادستی کے مطالبے کے بیانیہ کی حمایت پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے طور پر دیکھی جا رہی تھیں۔

تاہم اب انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ”سیاست کے لئے ساری عمر پڑی ہے، والدین سب سے ضروری ہیں“، خود کو لیڈر شپ کے مقام سے پیچھے ہٹا لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعکس پیپلز پارٹی کے پاس صوبہ سندھ کی حکومت موجود ہے۔ یوں پیپلز پارٹی کی طرف سے عمران خان کی حکومت کے سسٹم کے خلاف سخت رویے کا اظہار نہ کرنے کی حیلوں کی فہرست مسلم لیگ (ن) کی نسبت زیادہ طویل ہے تاہم اس سے آئین کی بالا دستی کے عزم سے متعلق پیپلز پارٹی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کااآزادی مارچ کے بعد پلان بی اور پھر پلان سی کیا رنگ لاسکتا ہے؟ آرمی چیف سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات میں کن امور پر اتفاق ہوا؟ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں؟ کیا زرداری فیملی کے لئے کسی رعایت کی کارروائی زیرغور ہے؟ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو غور و فکر کے لئے دو دن کی یکسوئی کا ماحول کیوں ضروری تصور کیا گیا؟ نیا وزیر اعظم بنایا جائے گا؟

”نئی دکان پرانا کام“ کے مصداق نئی انتظامیہ تیار کی جائے گی؟ یا نئے الیکشن کا ڈول ڈالا جائے گا؟ اصل سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا فوج اپنی آئینی پابندیوں کی پاسداری میں حاکمیت سے دستبردار ہوتی ہے اور کیا ہمارے سیاست دان با اختیار اور باوقار پارلیمنٹ کی حاکمیت کے قیام کے تقاضوں سے ہم آہنگ کردار کا مظاہرہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

سیاسی رہنماؤں، باخبر صحافیوں کی بات کریں تو وہ مختلف ملاقاتوں میں ہونے والی باتوں، سینہ بہ سینہ گردش کرنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ہی انکشافات کرتے ہیں اور اپنے تجزیہ کے مطابق امکانات پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اصل حقیقت پیسے کی ہوتی ہے کسی کی عزت بھی اچھالی جائے تو عدالتی چارہ جوئی میں بھی عزت کا تعین پیسے کے نقصان کی بنیاد پر ہی کیا جا تا ہے۔ اس لئے یہ بات نہایت اہم ہے کہ درج بالا امور سے متعلق کس معاملے پر سٹہ بازوں کے ریٹس کیا ہیں؟ جس امکان کے ریٹ گریں گے اس کی کمزور حالت مصدقہ ہو گی، جن امکانات کے ریٹس میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی قوت اور ساکھ میں اضافہ یقینی تصور ہو گا۔

بہر حال جو بھی ہو، ملک کا عام شہری عوامی اقتدار کا خواب ہی دیکھتا رہے گا، نہ اس کے حاکم بدلیں گے نہ اس پر مسلط حاکمیت میں کوئی تغیر وقوع پذیر ہو گا۔ حاکمیت اور حکومت والے شاد باد، باعزت اوربامراد جبکہ عوام ذلیل و خوار اور نامراد ہی رہیں گے۔ ہاں یہ دعوی جاری رہے گا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، ملک آگے جا رہا ہے، لیکن ملک کو دھکا لگا کر آگے بڑھانے کی کوشش کی بیگار کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک کی گاڑی آگے نہیں بلکہ پیچھے کی جانب ہی کھسک رہی ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی مارکہ جمہوریت، حکومت، حاکمیت اور پاکستانی مارکہ انصاف کی روشنی میں پیچھے جانے کو ہی آگے بڑھنا قرار دے دیا گیا ہو۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی اس جملے کی تفسیر معلوم ہوتی ہے کہ ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے لیکن عملی صورتحال یہ حقیقت بیان کر ہی دیتی ہے کہ جو کہا جا رہا ہے، حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ دفاعی امور کا بھی احاطہ رکھنے والی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عالمی سطح کے اقرار، اہداف سے متعلق کچھ معلوم نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملک میں اپنی مرضی کی بساط بچھانے کے لئے سیاسی انتشار کی ”جدوجہد“ سے اقتصادی بدحالی کو خطرناک مرحلے میں دھکیل دیا گیا۔ عوام سے سرکاری واجبات کی ادائیگی کے موضوعات اور مقدار میں گراں اضافہ کیا گیا، عوام کو غیر معمولی مہنگائی کا شکار بناتے ہوئے معاشی طور پر قابل رحم حالت میں دھکیل دیا گیا۔ ملک میں عوامی مفادات، عوامی خواہشات، عوامی مطالبات کو دبانے کی پالیسی ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔

اب تو وہ وقت آ چکا ہے کہ جہاں فکر کی بات ملک کے آگے یا پیچھے جانے کے نہیں بلکہ یہ ہے کہ ملک کو مضبوط کیا جا رہا ہے یا پاکستان کو ماضی کے بدترین تجربات سے دوبارہ گزارنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے؟ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی نظام، حاکمیت تو فوج کے ہاتھ میں ہی رہے گی، پھر فرق کیا؟ کیا فوجی حاکمیت صدارتی نظام میں اپنے لئے زیادہ سہولت محسوس کرتی ہے؟ مرضی سے یا مجبوری میں فوج کی حاکمیت قبول، تسلیم کرنے والوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے بھی پاکستان کی حالت میں بہتری ممکن نظر نہیں آتی، اس طرز حاکمیت سے پاکستان کی سلامتی اور بقاء سنگین ترین نتائج کی دہلیز پہ آ چکی ہے۔ عوام کو مجبور، عاجز، فقیر، نامراد رکھنے کے ”فول پروف“ اقدامات سے پاکستان کا کسی بھی صورت بھلا نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).