کیا آپ خوشی کا راز جانتے ہیں؟


جب ہم کسی دوست، رشتے دار یا واقف کار سے اس کا حال احوال پوچھتے ہیں تو جواب لگا بندھا اور روایتی سا آتا ہے ”الحمد اللہ“، ”اللہ کا شکر ہے“، اور یہ کہ ”کرم ہے مولا کا“، ”میں ٹھیک ہوں“۔ کبھی یہ سننے کو نہیں ملتا کہ ”میں خوش ہوں“ یا ”میں مطمئن ہوں“ یا ”میں مزے میں ہوں“۔ بلکہ کبھی کبھی یہ آواز بھی کانوں میں پڑتی ہے : آج بڑے خوش لگ رہے ہیں، خیر تو ہے۔ جیسے خوش ہونا کوئی اچنبھے والی بات ہو۔

خوش کیسے رہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ خوشی کہتے کسے ہیں؟ ماہرین نفسیات کے مطابق ”خوش ہونا اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب ہمیں ساری دنیا اچھی لگ رہی ہوتی ہے۔ ہمارا دل ناچنے اور گانے کا کرتا ہے اور ہم مثبت جذبات کے زیر اثر دلچسپی انگیز اور توانائی بخش کیفیت میں ہوتے ہیں، منفی سوچیں ہم سے دور ہوتی ہیں اور ہم زیادہ صحت مند محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

اقوام ِ متحدّہ نے خوشحالی، صحت کا معیار، جرائم کی تعداد، سماجی بہبود، تفریحی مقامات اور نقل مکانی وغیرہ کو معیار بنا کر دنیا میں بسنے والی 192 اقوام میں خوشی کا تناسب معلوم کر کے ایک رپورٹ مرتّب کی ہے۔ اس رپورٹ کو عالمی مسرّت کی روداد : (World Happiness Report) کا نام دیا گیا ہے۔ اس فہرست میں یورپ کے شمال میں واقع پچپن لاکھ نفوس پر مشتمل ملک فن لینڈ (Finland) پہلے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں جنوبی سوڈان آخری یعنی ایک سو بانوے ( 192 ) جبکہ پاکستان سرسٹھویں 67 نمبر پر ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس جیسی دوسری ترقی پذیراقوام زندگی کی خوشیوں سے اجتماعی اور انفرادی طور پر محروم کیوں ہیں؟

خوشی کی کیفیت کو دو طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اجتماعی خوشی اور انفرادی خوشی۔ افراد کے خوش اور ناخوش ہونے پر ان کا ماحول، سماج اور ثقافت براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ قدامت پسند ثقافت کی گود میں پرورش پانے والے روایتی معاشروں میں بناے جانے والے رسم ہ رواج اور خود ساختہ قوانین ہر اس کام سے افراد کو روکتے ہیں، جن سے انسان کو خوشی میسّر آ سکتی ہے۔ ناچنا، گانا، قہقہے لگانا اور کھیل کُود کرنا، میلے ٹھیلے سجانا، مکروہ فعل اور لہو لعب کے زمرے میں آتا ہے۔

کھیلیں نہ صرف ایک صحت مند مشق ہیں بلکہ دماغ سے منفیت اور تھکاوٹ دُور کر کے ترو تازہ کرتی ہیں۔ مگر ہمارے شہروں میں نہ توسینما ہاؤس اور تھیٹر ہیں اور نہ ہی ضلعی اور صوبائی سطح پر کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد کیا جاتا ہے۔ ستر کی دہای سے قبل صرف راولپنڈی میں بیس سینما گھر تھے، اب بھی چند ایک سینما گھروں کے سوا کوئی ایک تھیئٹر بھی موجود نہیں ہے، ملک کا دارلخلافہ اسلام آباد گزشتہ چالیس برس سے کسی ایک بھی NAFDEC طرز کے سینما گھر سے محروم ہے۔

ہمارے سرکاری اور بالخصوص پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھیل کے میدانوں اور دیگر سہولتوں سے یکسر محروم ہیں۔ کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ حکومت سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ کیونکہ اس کے سربراہ کرکٹ کے میدان میں نہ صرف اپنا لوہا منوا چکے ہیں بلکہ قوم کو ورلڈ کپ جیسی اجتماعی خوشی بھی دے چکے ہیں۔ انہوں نے ملک کے قریے قریے میں کھیلوں کو فروغ دینے کے وعدے بھی کیے مگر بد قسمتی سے وہ اپنا وعدہ بھلا کر شاید کچھ زیادہ اہم وعدے نبھانے میں مصروف ہیں۔

ایسے گھٹن زدہ ماحول میں عوام کے خوش ہونے کا کیا سامان باقی بچتا ہے۔ جب شادی بیاہ پررقص و سرود اور مخلوط سماجی میل جول کو معیوب سمجھا جائے گا تو لوگ ہوائی فائرنگ جیسا خطر ناک کھیل، کھیل کر خوش ہو لیں گے۔ جب بچوں کو کھیلوں سے محروم کر دیا جائے گا تو وہ وَن وھیلنگ (One Whealing) کر کے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر خوشی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان میں بسنت جیسے خوش کُن، پُر رونق اور رنگین تہوار پرپابندی ہے۔ ایسی ناروا پابندیوں کے بیچ عام عوام اجتماعی خوشیاں کہاں تلاش کریں؟ ہاں البتہ ہم انفرادی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں-

Laurie Santos

امریکہ کی ییل یونیورسٹی (Yale University) میں خوشی کی نفسیات اور علم ادراک کی پروفیسر لوری سینٹوس (Laurie Santos) کا کہنا ہے کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خوش رہنے کے لئے دانستہ کوشش (Concious Effort) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ آسان نہیں۔ اس کے لئے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ ییل یونیورسٹی کی 316 سالہ تاریخ میں ان کی کلاس سب سے زیادہ مقبول ہے۔ لوری طلبا کو جو تعداد میں اس وقت بارہ سو ہیں، خوش رہنے کی عملی مشق کرواتی ہیں، وہ انفرادی طور پر خوش رہنے کے پانچ طریقے بتاتی ہیں :۔

1۔ شکر اور احسان مندی کی ایک فہرست بنائیں۔ ایک پورا ہفتہ رات کے وقت ان چیزوں کو لکھیں جن کے لئے آپ شکر گزار ہیں۔

2۔ زیادہ اور بہتر طریقے سے نیند لیں۔ سینٹوس کے مطابق اس کام کو کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ ایک ہفتے تک رات کو آٹھ گھنٹے سوئیں۔ زیادہ نیند لینے سے آپ کے ڈپریشن میں جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور آپ میں مثبت رویہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

3۔ مراقبہ: آپ کو ہر روز دس منٹ تک استغراق کے عالم میں رہنا ہے۔ مراقبے (Meditation) سے مراد دماغ کو سوچوں سے خالی کرنا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسے کاموں کی طرف راغب رہیں جو کرنے سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔ تخلیقی مشغلہ یا پسند کا کام اور دوسروں کی مدد وغیرہ۔

4۔ زیادہ وقت اپنے اہل ِ خانہ یادوستوں کے ساتھ گزاریں۔ تازہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنے سے آپ زیادہ خوش رہتے ہیں۔

5۔ ۔ سوشل نیٹ ورک (Social Network) میں کمی اور اصل رابطہ (Real Connection) میں اضافہ کریں۔ سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والی خوشی کے جھوٹے احساس میں بہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تازہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ انسٹا گرام، فیس بُک اور وہٹس اپ جیسے سوشل نیٹ ورک (Social Network) کا استعمال کرتے ہیں وہ اُن لوگوں سے کم خوش رہتے ہیں جو ان کا استعمال نہیں کرتے۔

پروفیسر لوری سینٹوس کے مطابق خوشی اور خوش رہنے کا تعلق دولت اور آ سایشوں کے ساتھ ضرور ہے۔ مگر اس سے کہیں زیادہ اس کی عادات اور خیالات کے ساتھ ہے۔

لہٰذا، اگر آپ واقعی خوش رہنا چاہتے ہیں تو زیادہ شکر گزار بنیے۔ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتے رہیے۔ دن بھر میں تھوڑی دیر کے لئے ذہن کو خالی کیجیے۔ سوشل میڈیا سے دور رہیے اور زیادہ نیند لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).