گالی دینا اب بری بات نہیں


بچپن سے سنتے آئے ہیں، گالی دینا بہت بری بات ہے۔ بڑے ہو کر بھی یہی سنا کہ یہ کم ظرفوں، بد تمیزوں اور جاہلوں کا کام ہے۔ جب تک ادب صرف کتابوں میں اور میڈیا صرف پرنٹ تک تھا گالی پڑھنے کو نہ ملی۔ ایک ریڈیو تھا تو وہاں زبان اور بیان پورے قابو میں رکھی جاتی تھی۔ ٹی وی آیا تو وہ بھی سرکاری تھا کسی نے کسی کو گالی نہیں دی۔ ہاں اشاروں کنایوں میں کوئی کچھ کہہ دے تو اور بات۔

ہمارے بچپن تک تو زبان کی درستی اور لہجہ کی شائستگی پر بڑا زور تھا۔ بات بات پر کہا جاتا

” اوں ہونھ ۔۔۔ بری بات ۔۔۔ ایسا نہیں کہتے ۔۔۔ یہ گندی بات ہے ۔۔۔ توبہ کرو”

ایک بار کسی کو بہت ہی بے ضرر سی (ایک پرندے کی اولاد) گالی منہ سے نکل گئی۔ بڑوں نے خوب خبر لی۔ حالانکہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا ادب کا حصہ سمجھ جاتا ہے۔

” قیامت کے دن منہ میں انگارہ بن جائے گی یہ گالی۔ تمہاری زبان کالی ہو جائے گی۔” دہشت کے مارے زبان صابن مل مل کے صاف کی۔ بار بار آیئنے میں زبان چیک کی کہ کہیں کالی تو نہیں ہو گئی۔ یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو گلی کوچوں اور بازاروں میں لوگ با آواز بلند گالیاں دیتے ہیں ان کی زبانیں تو کوئلہ بن چکی ہوں گی۔

لیکن اب بہت کچھ بہت جلدی بدل گیا ہے۔ اب گالی ایک بالکل عام سی بول چال میں شمار ہونے لگی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم گالی کیوں دیتے ہیں؟

گالی کمزور کو دی جاتی ہے۔ کسی طاقتور کو گالی دیجیے تو لگ پتہ جائے گا۔ مرد گالیاں دینے میں عورتوں کے مقابلے میں زیادہ بے باک اور بے حجاب ہیں۔ گالی دیتے ہوئے بھی عورت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ماں بہن کسی کی بھی سانجھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر سیاسی پارٹیوں کے حامیوں نے مخالفین کے لیئے نت نئی گالیاں ایجاد بھی کر ڈالیں۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر سیاسی مخالفین آزادی سے ایک دوسرے کو القاب سے نواز رہے ہیں اور جوابی القاب پا رہے ہیں۔ سکرین کے پیچھے یہ لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ آمنے سامنے ہوں تو شاید جنگ ہی ہو جائے۔

گالیاں کن حالالت میں دی جاتی ہیں؟۔ غصے میں، مقابل کو ذلیل کرنے کے لیئے، یا اپنی جھنجھلاہٹ میں بے جان چیزوں کو۔ جیسا کہ کھانا پکاتے ہوئے ہاتھ جل جائے، چلتے میں پیر رپٹ جائے، کمپیوٹر ایک دم فریز ہو جائے، آرٹیکل جو لکھ رہے تھے کسی غلط بٹن پر انگلی لگ جانے سے غائب ہو جائے۔، انٹر نیٹ کی اسپیڈ سست ہو جائے۔ گاڑی چلتے چلتے رک جائے، ٹریفک میں پھنس جائیں، اسے کےعلاوہ بھی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم روزانہ کی بنیاد پر گالی دیتے یا لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔

چھوٹی موٹی گالیاں ہم سب ہی دیتے ہیں۔ جانوروں سے انسانوں کو ملاتے ہیں۔ جانور اگر زبان رکھتے تو ضرور پرزور احتجاج کرتے۔

گالی دینا بری بات تھی۔

لیکن یہ باتیں ہوئیں پرانی، اب نیا زمانہ ہے۔ نئی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس مضمون میں جس تحقیق اور سروے کی بات ہو رہی ہے وہ مغربی معاشرے سے متعلق ہے۔ شاید آپ پر اس کا اطلاق نہ ہو۔

اب آپ خوش ہوجایئے کہ ایک تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ گالی دینا نہ صرف یہ کہ بری بات نہیں ہے بلکہ یہ ذہانت کی نشانی ہے۔اور یہ آپ کی صحت کے لیئے بھی مفید ہے۔ ایک تحقیقی مصنفہ ہیں ایما برئین انہوں نے تو ایک پوری کتاب لکھ ڈالی یہ ثابت کرنے میں کہ گالی دینے کے کئی مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں

اگر آپ کی گالی کسی کی تضحیک نہیں اور کوئی دل نہیں دکھا رہی تو جان لیجیے کہ گالی دینا کوئی غیر اخلاقی بات نہیں۔

نیو یارک پوسٹ کے ایک آرٹیکل کے مطابق گالی دینے سے آپ کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ اور اگر اچانک چوٹ لگ جائے تو گالی یا لعنت ملامت کرے سے درد میں بھی کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے یا درد کو برداشت کرنے کی ہمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔۔ شدید غصے کی کیفیت میں بھی افاقہ آ سکتا ہے اگر دوچار گالیاں ادھر ادھر اچھال دیں۔ ٹھنڈ سی دل میں پڑ جاتی ہے۔ فرسٹریشن بھی دور ہو سکتی ہے۔

آپ گالی دینے کو ایک منفی عمل مانتے ہوں گے لیکن ایک کلینکل تھراپسٹ کا کہنا ہے کہ گالی گلوچ کرنے والا شخص کسی حد تک ذہین، سچا اور کھرا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جذبات اور سوچ کا کھل کر اظہار کر تا ہے۔ گالی دینا دماغ کے لیئے بھی مفید ہے۔ کیونکہ اس میں دماغ کے دونوں سنٹر کام کرتے ہیں۔ لسانی عمل دماغ کے بایں جانب سے ہوتا ہے اور جذبات دائیں جانب والے سنٹر سے۔ اس طرح گالیوں پر مبنی گفتگو میں آپ کے دماغ کے دونوں حصے فعال ہو جاتے ہیں اور دماغ کے کام کرنےکی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ سایئنسدانوں کا کہنا ہے کہ گالی دینے اور لعنت ملامت کرنے سے آپ کا غصہ کسی حد تک دور ہو جاتا ہے اور آپ جسمانی تشدد کرنے سے بچ جاتے ہیں۔ اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ گالی دینے سے آپ کا کتھارسس بھی ہوتا رہتا ہے۔

کچھ گالیاں زیادہ مقبول ہیں۔ ان میں ایف ورڈ کی گالی سب سے ذیادہ دی اور سنی جاتی ہے۔ ہولی وڈ کی فلم ہو یا برٹش سنیما ہر فلم میں بلا تکلف یہ لفظ یا اس سے ملتے جلتے دوسرے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ بولی وڈ بھی اسی راہ پر چل رہا ہے اور ہمارے بچے تیزی سے اس رحجان کو اپنا رہے ہیں۔

خواتین کے لیئے یہ خبر اچنبھے کی ہو گی کہ عورتیں مردوں سے زیادہ گالیاں دینے لگی ہیں۔ ایما اپنی تحقیق میں یہ بھی کہتی ہیں کہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ عورتیں گالی گلوچ کی زبان نہیں بولتیں لیکن یہ مفروضہ ہی ہے۔ عورتیں بھی آزادانہ طور پر ایسی زبان استعمال کرتی ہیں۔ عورتوں میں بھی ایف ورڈ بہت مقبول ہے اور اس کا وہ برملا استعمال بھی کرتی ہیں۔ اب ہوتے ہمارے وہ ٹی وی ڈرامہ نویس تو کہتے خالی باتیں کرتی ہو، کر کے دکھاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).