کیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟
کچھ قارئین کے لیے مندرجہ ذیل کہانی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
18 اکتوبر 2012 کو برطانوی سپیشل فورسز نے ایک افغان گاؤں میں چار نوجوانوں کو مار ڈالا۔ ان کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان چار میں سے تین بچے تھے۔ بظاہر یہ ایک جنگی جرم ہے مگر اس حوالے سے کسی کے خلاف کوئی مقدمات نہیں ہوئے ہیں۔
افغان عینی شاہدین بیان کرتے ہیں کہ کیسے 12 سالہ احمد شاہ اور 14 سالہ محمد طیب نے فیصلہ کیا کہ وہ 17 سالہ نیک محمد اور اس کے 20 سالہ بھائی فضل کے گھر رات گزاریں گے۔
مقامی وقت کے مطابق تقریباً شام آٹھ بجے برطانوی اور افغان سپیشل فورسز لویہ باغ نامی گاؤں پہنچے اور ان لڑکوں کے گھر میں گھس کر ہر کمرے کی تلاشی لینے لگے۔
ایک برطانوی فوجی ایک گیسٹ روم میں گھسا اور فائرنگ شروع کر دی۔ یہ چاروں لڑکے اسی کمرے میں موجود تھے۔
جب فوجی وہاں سے چلے گئے تو نیک اور فضل کا بڑا بھائی سلطان محمد وہاں سب سے پہلے پہنچے۔
وہ کہتے ہیں ’جب میں کمرے میں داخل ہوا تو مجھے ہر طرف ہڈیاں اور دانت بکھرے ہوئے نظر آئے۔ وہ چاروں زمین پر پڑے تھے اور ہر طرف خون پھیلا ہوا تھا۔‘
ان کی والدہ صبا محمد، ان چار لاشوں کے ساتھ گیسٹ کمرے میں اگلی صبح تک بیٹھی رہیں۔ انھیں یاد ہے کہ کیسے چائے کی پیالیاں ابھی بھی زمین پر پڑی تھیں۔
وہ کہتی ہیں ’ان کی چائے کی پیالیوں میں خون تھا۔ انھیں سروں پر گولیاں مار گئی تھیں۔‘
لویہ باغ میں چار افغان لڑکوں کو مارے جانے کے بعد ان کی لاشیں مقامی مسجد میں رکھی گئیں۔ جیسے جیسے خبر پھیلی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ لڑکے بےقصور عام شہری تھے۔
نادِ علی کے اُس وقت کے ضلعی گورنر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ انھیں افغان سکیورٹی ایجنسی نے بتایا تھا کہ اس کارروائی کا ہدف فضل محمد تھا۔
وہ کہتے ہیں ’میں اس سے ہر روز ملتا تھا۔ وہ طالبان کمانڈر کیسے ہو سکتا تھا۔ میں اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہوں کہ یہ ناممکن تھا۔‘
’اگر وہ طالبان ہوتے تو میں خود کو خطرے میں محسوس کرتا۔ میں پہلا شخص ہوتا جو اسے گرفتار کرتا یا قتل کرتا۔‘
سنڈے ٹائمز اور بی بی سی پینوراما کی مشترکہ تحقیق نے اس بات کا پتا لگانے کی کوشش کی ہے کہ اس روز کیا ہوا تھا اور شواہد کے مطابق اُس دن جنگی جرائم سرزد کیے گئے۔
’مارنے اور پکڑنے کی نہ رکنے والی مشین‘
لویہ باغ جیسی کارروائیوں کا مقصد طالبان کو نشانہ بنانا تھا اور یہ افغانستان کی جنگ میں ایک عام بات بن گئی تھیں۔
اتحادیوں کی سپیشل فورسز ایسی ’مارو یا پکڑو‘ طرز کی کارروائیاں عموماً رات کے اندھیرے میں کرتے تھے تاکہ ان طالبان کو نشانہ بنایا جا سکے جو برطانوی فورسز کے خلاف حملوں میں ملوث ہوتے تھے۔ ان کارروائیوں کے لیے اہداف کا تعین انٹیلیجنس افسران کرتے تھے۔
ایک سابق انٹیلیجنس افسر اور جنگی امور کے ماہر فرینک لیوج کہتے ہیں ’رات کی کارروائیاں یا ڈیتھ سکواڈ (جیسے لوگ ان کو پکارتے ہیں) میں ہوتا یہ تھا کہ آپ رات کو باہر جاتے تھے چاہے آپ کے پاس ہدف ہو یا نہیں۔ یہ جیسے ایک نہ رکنے والی مشین تھی جس نے مارنا یا پکڑنا ہے۔‘
ان کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں یقیناً کچھ طالبان ہوتے تھے مگر ایسے بھی شواہد موجود ہیں کہ ان اہداف کو چننے کے لیے جو انٹیلیجنس استعمال کی جاتی تھی وہ ہمیشہ درست نہیں ہوتی تھی۔
2010 تک اقوام متحدہ میں ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے خصوصی مندوب فیلپ ایلسٹن کا کہنا ہے کہ انھیں ان کارروائیوں میں معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بہت سی شکایات موصول ہوئی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے کوئی شک نہیں کہ بہت سارے (فوجیوں پر لگائے گئے) الزامات درست ہیں اور اور ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ان کارروائیوں میں بہت سے عام شہریوں کو بلاوجہ قتل کیا گیا۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق اتحادی فورسز نے ان کارروائیوں میں کم از کم 300 بےقصور عام شہریوں کو قتل کیا۔
چار قتل
لویہ باغ کے اس گیسٹ روم میں چار لڑکوں کے قتل کی وجہ سے مقامی سطح پر بہت شور مچا اور بعد میں رائل ملٹری پولیس (آر ایم پی) نے اس کی تفتیش کی۔
آر ایم پی نے درجنوں ایسی مشکوک ہلاکتوں جن میں سپیشل فورسز کے اہلکار ملوث تھے، ان کی بڑے پیمانے پر تفتیش کی اور اسے آپریشن نارتھ مور کہا گیا۔ بی بی سی پینوراما اور سنڈے ٹائمز نے اس سے منسلک افراد سے معلومات حاصل کیں ہیں۔
جس فوجی نے لڑکوں کو مارا تھا اس نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ اس نے ایسا اپنے دفاع میں کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے دو لڑکوں کو اس لیے مارا کیونکہ وہ کھڑکیوں سے اس کی جانب ہتھیار تانے بیٹھے تھے اور باقی دو کو اس نے تب مارا جب وہ سائے سے ایک دم نکل آئے۔
مگر لڑکوں کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق چاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اور وہ جدید ہتھیاروں سے لیس برطانوی سپیشل فورسز کے فوجیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے۔
نیک اور فضل کے بڑے بھائی سلطان محمد کہتے ہیں کہ ’چاروں کو اس وقت مارا گیا جب وہ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔‘
پینوراما کو ملنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کمرے میں گولیوں کے نشان دیواروں پر دو فٹ اونچائی سے زیادہ پر نہیں ہیں جس سے لڑکوں کے خاندانوں کی بات سچ معلوم ہوتی ہے۔
آر ایم پی کے تفتیش کار چاہتے تھے کہ اس فوجی کے خلاف قتل کے چار مقدمات چلائے جائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ جس افسر نے ایک جھوٹی رپورٹ پر اس کارروائی کا حکم دیا اس کے خلاف فردِ جرم عائد کی جائے اور اس کے اعلیٰ افسر پر جرم چھپانے کا مقدمہ کیا جائے۔
یہ برطانوی سپیشل فورسز کے اعلیٰ ترین افسران میں سے کچھ تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ایک ایسا واقعہ چھپایا جس میں بچوں کا بےجا قتل کیا گیا۔
مگر برطانوی فوج نے فیصلہ کیا کہ ان کے خلاف کوئی مقدمے نہیں چلائے جائیں گے اور 2017 میں حکومت نے اعلان کیا کہ آپریشن نارتھ مور بند کیا جا رہا ہے۔
مگر جب پینوراما نے تمام شواہد جمع کر کے کراؤن پروسیکیوشن سروس کے سابق سربراہ لارڈ کین مکڈونلڈ کے سامنے رکھے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کو دوبارہ زیرِ غور لایا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’گولیوں کے نشانات کے شواہد اس فوجی کے بیان سے مماثلت نہیں رکھتے۔ اور وہ متاثرتن کے خاندانوں کی کہانی کو بظاہر درست ثابت کرتے ہیں۔‘
’اور اگر یہ درست ہے کہ واقعے کے بعد دستاویزات میں ردوبدل کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو مجھے اور بھی شک ہوتا ہے کہ اس کمرے میں کیا ہوا۔‘
ادھر وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ تمام فوجی کارروائیاں قانون کے مطابق کی گئیں اور ان الزامات کی تفصیلی تفتیش ہو چکی ہے۔ انھوں نے حقائق کو چھپانے کے رجحان کے حوالے سے ’بے بنیاد‘ الزام کو رد کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری فوج نے عراق اور افغانستان میں انتہائی جذبے اور پیشہ وارانہ انداز سے اپنی ذمہ داریاں نبھائی اور ہم انھیں اعلیٰ ترین معیار پر جوابدے بناتے ہیں۔‘
’ان کیسز کی تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد آزاد سروس پروسیکیوٹنگ اتھارٹی نے بھی اس فوجی کے خلاف مقدمات کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ تفتیش کا عمل اور مقدمات کرنے کے فیصلے درست طور پر وزارتِ دفاع کے ہاتھ میں نہیں اور ان میں بیرونی نگرانی اور قانونی مشاورت شامل تھی۔ بی بی سی کے دعوؤں کو سروس پولیس اور سروس پروسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ الزامات پر غور کرنے کو تیار رہتی ہے۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).