دوستو! انقلاب مؤخر ہوا


وہی جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے، پھر سے ہو رہا ہے۔

بالکل اُسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کو پچھاڑنے کے لیے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جس میں سے ن لیگ، ق لیگ، ضیا لیگ، فنکشنل، نان فنکشنل اور کئی ایک ’جمہوری‘ گروپ اور کئی عدد چھوٹی چھوٹی الف سے ے تک مسلم لیگیں برآمد ہوئیں۔

پھر دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے سے محاذ آرائی کرتی رہیں، لڑتی رہیں، جھگڑتی رہیں اور پھر ’لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔‘

احساس ہوا کہ دونوں جماعتوں کی محاذ آرائی میں جمہوریت اور جمہور کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یوں میثاق جمہوریت نے جنم لیا اور اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ وہ کچھ تہی دست سی ہو گئی ہے۔

جنرل مشرف کے دور آمریت میں عمران خان اپنی ذات میں ہی جماعت تھے اور پھر جماعت کو اُن کے ساتھ کر دیا گیا جس کی کہانی چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے حال ہی میں سنائی۔ یعنی پنجابی کے محاورے کے عین مطابق ’چوراں نوں پے گئے مور، تے موراں نوں پے گئے ہور‘۔

عمران خان

ن لیگ کے تیسرے دور حکومت سے قبل ’تبدیلی‘ جنم لے چکی تھی مگر اس دور میں پچھلی تمام ’غلطیوں‘ کے مداوے اور سویلین بالادستی کی خواہش نے اداروں کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی جس کا بھر پور فائدہ ’تبدیلی‘ والوں نے اُٹھایا

وقت نے ثابت کیا کہ ہر جماعت بوقت ضرورت اور حسب استطاعت کام آتی رہی، استعمال ہوتی رہی اور مقتدر اپنی سہولت اور ضرورت کے تحت انھیں استعمال کرتے رہے۔

پاکستان میں اِس سانپ سیڑھی کے کھیل میں اصل موڑ تب آیا جب بقول پرانی سیاسی جماعتوں کے انھوں نے وقت سے ’سیکھ‘ لیا۔

حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے دو ہزار آٹھ میں دو حریف جماعتوں نے باضابطہ حکومت میں ہاتھ ملایا اور سیاہ پٹیاں باندھ کر جنرل پرویز مشرف سے حلف لیا۔

ہمیں آج بھی وہ دن یاد ہے جب اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے جیالے اور ن لیگ کے متوالے ایک صفحے پر نہ صرف نظر آئے بلکہ دونوں نے مل کر جنرل پرویز مشرف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، اٹھارویں ترمیم کی اور پارلیمنٹ کے اختیارات پارلیمان کو واپس دیے۔

پیار کی یہ پینگیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تحریک کی نذر ہوئیں اور نواز شریف کا لانگ مارچ جنرل کیانی کی گوجرانوالہ میں آنے والی ٹیلی فون کال پر اختتام کو پہنچا۔

یہ انقلاب بھی جی ایچ کیو کی مداخلت کے بنا کامیاب نہ ہوتا سو یہ تحریک کامیاب ہوئی۔

آصف زرداری

وزیراعظم نے ججوں کو بحال کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کے جسٹس چوہدری کے بارے میں شکوک و شبہات درست نکلے اور پاکستان کے عدالتی فیصلوں نے عملاً انتظامیہ اور مقننہ کو مفلوج کیے رکھا

وزیراعظم نے ججوں کو بحال کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کے جسٹس چوہدری کے بارے میں شکوک و شبہات درست نکلے اور پاکستان کے عدالتی فیصلوں نے عملاً انتظامیہ اور مقننہ کو مفلوج کیے رکھا۔

ن لیگ نے اس معاملے پر بہت بعد میں پچھتاوے کا اظہار کیا لیکن اس دوران میمو گیٹ میں بھی ن لیگ استعمال ہوئی جس پر نواز شریف صاحب پشیمان ضرور ہوئے مگر تب تک چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں اور طوطے اُڑ چکے تھے۔

ن لیگ کے تیسرے دور حکومت سے قبل ’تبدیلی‘ جنم لے چکی تھی مگر اس دور میں پچھلی تمام ’غلطیوں‘ کے مداوے اور سویلین بالادستی کی خواہش نے اداروں کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی جس کا بھر پور فائدہ ’تبدیلی‘ والوں نے اُٹھایا۔

قوم کو ’سونامی‘ اور پھر ’تبدیلی‘ اور پھر ’ریاست مدینہ‘ کے خواب یوں دکھائے گئے کہ جیسے تحریک انصاف جادو کی چھڑی سے ملک کی تقدیر پہلے نوے دنوں میں ہی بدل کر رکھ دے گی۔ دو سو ارب یہاں سے آئے گا اور ملازمتوں کی لائنیں لگ جائیں گی، سبز پاسپورٹ دنیا بھر میں کمال دکھائے گا اور پچاس لاکھ گھر راتوں رات بن جائیں گے۔

خواب دیکھنے کو محض دو بند آنکھیں ہی چاہییں مگر تعبیر کے لئے کئی ایک متحرک بازو۔ خواب تعبیر کے بنا بُنتے رہیں تو آنکھیں سوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں جو حشر تبدیلی کا ہوا اتنے کم عرصے میں کبھی دیکھنے کو نہ ملا۔

’تبدیلی‘ میں تبدیلی بھی آ سکتی ہے اور آ رہی ہے۔ نواز شریف باہر جا رہے ہیں اور کپتان غصے میں آ رہے ہیں۔ اب بھی وہی حالات ہیں۔

نواز

جیسے پیپلز پارٹی کو پچھاڑنے کے لیے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جس میں سے ن لیگ، ق لیگ، ضیا لیگ، فنکشنل، نان فنکشنل اور کئی ایک ‘جمہوری’ گروپ اور کئی عدد چھوٹی چھوٹی الف سے ے تک مسلم لیگیں برآمد ہوئیں

مولانا کا انقلاب چھوٹی چھوٹی ٹولیوں اور ن لیگ کا انقلاب اگلی حکومت کی تگ و دو میں تقسیم ہو چکا ہے۔

پیپلز پارٹی اپنی سندھ سرکار بچانے میں مصروف ہے اور ق لیگ نئی لابیئنگ کا حصہ۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ فی الحال اگلے اعلان تک موقوف اور تحریک انصاف اگلے دن کی بقا کی جنگ میں مصروف۔

اب بھی وہی ہو گا، ایک جماعت دوسری کی حکومت کو گرانے اور تیسری جماعت لائن میں لگ کر اپنی باری آنے کے انتظار میں رہے گی۔

سب اپنی اپنی گیم کے لیے نیٹ پریکٹس کرنے میں مصروف رہیں گے اور ڈوریوں والے ہاتھ تھک جانے پر ایک بازو کو آرام اور کبھی دوسرے سے طنابیں کھینچتے رہیں گے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

چلو دوستو! انقلاب کچھ دنوں کے لیے مؤخر ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).