پھٹی پینٹ


آف کورس موم وی آر ریڈی۔ نئی نئی شادی کے بعد بیٹا اور بہو سنگاپور سے لاہور پہنچے تھے۔ ایک ہی بیٹا تھا جس کی شادی وہیں سنگاپور میں ہی ہوئی تھی جو ہنی مون گزارنے کے 4 ماہ بعد پاکستان آئے تھے۔

لڑکی خاندانی امیر تھی جو کراچی کی ایک بزنس مین فیملی سے تعلق رکھتی تھی مگر اب ان کی فیملی وہیں سنگاپور میں ہی سیٹل تھی جبکہ لڑکے والوں کو امیر ہوئے ابھی دو نسلیں گزری تھیں۔ لڑکا خدوخال سے تو مکمل مرد تھا مگر ایک ہونے کے ناتے کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار ملا جس کی وجہ سے ابھی تک حرکتیں بچوں جیسی ہی تھیں۔

ان کو لاہور پہنچے ہوئے 2 دن گزر چکے تھے۔ اتوار کا روز تھا ان کے والدین نے منصوبہ بنایا ہوا تھا کہ بیٹے کی شادی کی خوشی میں آج غریبوں میں جا کے کپڑے اور کھانا بانٹتے ہیں۔ تو وہ اپنے ساتھ ان دونوں کو بھی لے جانا چاہتے تھے۔

صبح کے 10 ان کو گھر پر ہی ہو چکے تھے، والدہ بار بار ایک ہی آواز لگا رہی تھیں بیٹا وی آر گیٹنگ لیٹ، آر یو ریڈی؟ آخر کار دونوں اپنے روم سے باہر آئے اور کہا آف کورس موم وی آر ریڈی۔ بیٹے نے ہمیشہ کی طرح ویسی ہی جینز چڑھا رکھی تھی جو جگہ جگہ سے اپنی پامالی کا رونا رو رہی ہوتی تھی یعنی پھٹی۔

باپ نے کہا بیٹا ایسا کرو کرتا شلوار پہن لو، ہم نے ایسے ایریا میں جانا جہاں سب غریب رہتے ہیں۔ اس نے کہا کم آن پاپا اٹس مائی فیورٹ فیشن۔ جب اس کا یہ حال تھا تو کمی اس کی بیگم صاحبہ نے بھی نہ کی۔ وہ بھی اونچی ہیل، پھٹی پینٹ اور شرٹ کے ساتھ نکل پڑی۔

وہ غریبوں کی بستی یعنی کچی آبادی پہنچے۔ سنگا پور کی طرح تازہ پانی کے پول تو نہیں مگرروڈ پر ہی بارش اور گٹر کے پانی سے بنے تالاب ان جیسے کئی امیروں اور حکمرانوں کا منہ ضرور چڑھا رہے تھے۔ گاڑی ایک طرف روک دی گئی۔

ناک پر ہاتھ رکھے شہزادہ اور شہزادی اپنے 2 نوکروں اور والدین کے ساتھ جھونپڑیوں کی طرف چل رہے تھے۔ بچے ان کو دیکھ کر بھاگ بھاگ کر ایک جگہ اکٹھے ہو کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ان کے سیارے پر کوئی خلائی مخلوق اتر آئی ہو۔

مرد عورتیں ان کے اردگرد جمع ہو گئے۔ ان کے والدین نے ان سے حال احوال پوچھا، اپنے بیٹی اور بیٹے کا تعارف کروایا۔ ان میں سے 2 بزرگوں نے آگے بڑھ کے ہاتھ ملایا، ماں باپ نے تو ملا لیا مگر بیٹے نے ہاتھ نہ ملا کر نفرت کا اظہار کیا۔ وہ شاید ایسے رویوں کے عادی تھے اس لیے ہنس دیے۔

وہاں موجود اکثر بچوں کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ بہت سارے ایسے تھے جن کے پاؤں ننگے تھے۔ ان کے والدین نے اپنے بچوں سے کہا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے ان میں کپڑے اور کھانا تقسیم کریں۔

اب جب بھی کھانا تقسیم ہو یا پھر کپڑے بچے ضرور جھپٹ پڑتے۔ اس شہزادے نے ایسا ماحول کبھی نا دیکھا تھا۔ بچے زیادہ تر ان کی ٹانگوں سے لپٹے تھے۔ کئی کے ہاتھ پھٹی پینٹ کے حصوں میں گئے اور کھینچا تانی میں پینٹ کی رہی سہی کسر نکل گئی۔

لڑکی تو چیپ سو چیپ بول کے پیچھے ہٹ گئی۔ یہ بیچارہ اپنی آواز اور حرکتوں سے اب لڑکوں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ سامان پھینک کے ایک دو کو انگلش میں گالیاں دیں ٹانگیں ماریں مگر وہ مسلسل ہنسی کا طوفان بنائے ہوئے تھے۔

ان کے بزرگوں نے لڑکوں کے ڈانٹا تو وہ ہٹ گئے۔ یہ سب تقسیم کر کے ہٹے ہی تھے کہ ان میں سے 2 بزرگ دو سوٹ واپس لائے اور ان سے کہا بیٹا آپ ہمارے پھٹے کپڑے دیکھ کر ہمیں کپڑے دینے آئے اس کا شکریہ مگر یہ دو سوٹ آپ کے ان بچوں کے لئے ہیں ہمیں ان کی غربت پہ بھی ترس آرہا ہے۔

لڑکا جذباتی تھا اسے اپنی بے عزتی محسوس ہوئی اس نے اس غریب بزرگ کی بے حرمتی کی۔ ان کے لڑکے اس کو مارنے کے لئے دوڑے مگر اس بزرگ نے روک دیا اور کہا۔

بیٹا ہمارے تو صرف کپڑے پھٹے ہیں آپ کی پینٹ کے ساتھ ساتھ آپ کا ضمیر بھی پھٹا ہوا ہے جو انسانیت پہ نہیں اپنے پیسے پہ نازاں ہے۔ یہ واقعہ مجھے ڈیفنس میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ افسر نے سنایا تھا۔ اور وہ صاحب ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).