میں بیرا ضرور ہوں، اندھا نہیں


چکن کارن سوپ کے ساتھ فِش کریکرز، مٹن بریانی، چکن کڑاہی، ریشمی کباب، کابلی پلاؤ، توا فش اور بار بی کیو پلیٹر کے ساتھ کچومر سیلیڈ اور پودینے والا رائتہ۔ یہ تفصیلات ہیں اس آرڈرز کی جو ہم دوست پرانے پاکستان میں کبھی کبھار ملنے کے موقع پر دیا کرتے تھے۔

اس بار جب نئے پاکستان میں پہلی بار ملے تو سب دوستوں نے مہنگے والے ریسٹورنٹ کی بجائے لاہور کے لکشمی چوک میں قائم ایک کڑاہی والے ریستوران کا انتخاب کیا۔ جہاں کڑاہی کے علاوہ کچھ اور آردڈر کرنے کی چوائس ہی نہیں ہوتی۔

سی پیک منصوبے کے تحت بنے والی لاہور کی زیر تعمیر اورینج ٹرین کے پُل تلے قائم کڑاہی شاپ پہنچنے پر کنڈوں سے الٹا لٹکی بکرے کی رانیں اور ٹنگی دیسی مرغیاں، تیز آنچ پر بُھنے والی کڑاھیوں کی خوشبو میں انتہائی مزیدار لگ رہی تھیں۔ جس کو دیکھتے دیکھتے ان ہری مرچوں اور دھنیے کا ٹیسٹ منہ میں آنے لگا۔ جو کہ کسی اور کی تیار ہونے والی کڑاہی پر چھڑکی جارہی تھیں۔

ابھی منہ میں پانی کا سیلاب شروع ہی ہوا تھا کہ ہمارے پیٹوں میں کودنے والے چوہوں کی آواز سن کر بیرے نے آکر بولا، مٹن کڑاہی لیں گے یا دیسی مرغی کی کڑاہی۔ یا نیب سے بچنے کے لیے برائلر مرغی پر ہی گزارہ کریں گے۔

بیرے کی نیب سے آشنائی اور مٹن و دیسی مرغ کی کڑاہی کے ریٹس سن کر قریب سے اٹھنے والا دھواں، ہمارے دماغوں سے ہو کر اٹھنے لگا۔ جس کے بعد ہم نے بیرے سے سوچنے کے لیے ٹائم مانگا۔ جس کے جواب میں بیرا بولا، کاش کہ آپ عمران خان کو ووٹ دینے سے پہلے بھی اتنا سوچ لیتے تو آج ان رانوں اور دیسی مرغیوں کی طرح آپ الٹا لٹکنے پر مجبور نا ہوتے۔

بیرے کے ایک اور باؤنسر کو کھسیانی ہسی کے ذریعے لیفٹ کرتے ہوئے سب دوستوں نے دیسی مرغی کی کڑاہی پر اکتفادہ کیا۔ جس کے جواب میں بیرے نے ایک ایسا سوال پھینک دیا کہ ہم نام نہاد پڑھے لکھے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

بیرا بولا۔ دیسی مرغی کی کڑاہی لیں گے یا مشری کی؟

جواب میں ہم میں سے ایک اتاولا بولا، بھائی ہم کڑاہی کھانے آئے ہیں۔ نیب میں پیشی پر نہیں۔ جو ایسے ایسے سوال کررہے ہو۔

اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے ایک اور دوست نے دریافت کیا۔ یہ مشری نئے پاکستان میں دیسی مرغی کی کوئی نئی قسم آئی ہے؟

بیرے نے جواب دیا کہ دیسی مرغی کی یہ قسم پرانے پاکستان میں بھی تھی۔ تاہم اس کی اہمیت کا اندازہ نئے پاکستان میں ہوا ہے۔ جب سے اصل دیسی مرغی کی قیمت آپ لوگوں کی اوقات سے باہرہوگئی ہے۔

اپنی اوقات پر ہونے والے ڈرون حملے کے بعد ایک دوست نے اکتا کر بیرے سے پوچھا کہ زیادہ ارشاد بھٹی نا بن۔ یہ بتا مشری مرغی کیا ہوتی ہے؟

جواب میں بیرے نے مشری مرغی کے ارتقائی عمل سے ہمیں روشناس کرواتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے خچر دنیا میں آیا۔ یا پھر جیسے نظریہ ضرورت کے تحت جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کے غیر فطری میلاپ سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے۔ ویسے ہی برائلر مرغی اور دیسی مرغی کے غیر فطری ملاپ سے مشری مرغی اس دنیا میں نئے پاکستان کے عوام کے لیے آئی ہے۔

مشری مرغی کے ارتقا اور اس کی وجہ ضرورت جاننے کے بعد مشری مرغی سے متعلق سوال پوچھنے والے دوست نے بیرے سے پوچھا کہ کیا ثبوت ہے کہ دیسی مرغی خالص خاندانی ہوگی۔

جواب میں بیرے نے جواب دیا کہ فکر نا کریں۔ اس بات کی گارنٹی ہے کہ ہمارے پاس دستیاب دیسی مرغی، سکیورٹی گارڈز کی نگرانی میں ہونے والے ملاپ کی صورت میں اس دنیا میں آئی ہے۔ جس کی تحقیقات کے لیے آپ پارلیمانی کمیٹی یا جوڈیشل کمیٹی بھی بنوا سکتے ہیں۔

ایسا پارلیمانی جواب سن کر ہم نے بیرے سے آپس میں مشورہ کرنے کے لیے کچھ وقت دینے کی درخواست کی اور آپس میں طے کیا کہ مشری حکومت کو دیے جانے والے ووٹ کی غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے بہتر ہے کہ بکرے کے گوشت کی کڑاہی کا آرڈر دیا جائے۔ جس کے بعد ہم نے مصروف ترین بیرے کو بلایا اور دو کلو مٹن کڑاہی کا آرڈر دیا۔

آرڈر دینے کے بعد ہمارے اتاولے دوست نے بیرے سے سوال کیا کہ مٹن بکرے کا گوشت ہی ہوگا نا۔ کھوتے کا گوشت تو نہیں ہوگا؟

جواب میں بیرے نے جواب دیا کہ بے فکر رہیں، ہم آر ٹی ایس کے نام پر دھوکہ نہیں دیتے اور نا ہی گوشت بناتے وقت گاہکوں کو انتخابی ایجنٹس کی طرح زبحہ خانے سے باہر نکالتے ہیں۔ آپ جو آرڈر دیں گے۔ وہ آرڈر لکھنے والی سیاہی بھی پکی ہے۔ بس آپ کو دینے والا بل کچا ہوگا۔ کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس اپنے حاصل کردہ ووٹوں کا ریکارڈ تو موجود نہیں ہے۔ لیکن ہر دکاندار کا ریکارڈ موجود ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کو کڑاہی تو اصلی بکرے کی ملے گی۔ لیکن رسید جعلی ملے گی۔

کچھ دیر بعد جب کڑاہی کے ساتھ گرما گرم روٹیاں، سلاد اور زیرے والا رائتہ ہمارے سامنے آیا تو ہم بھول گئے کہ یہ نیا پاکستان ہے یا پرانا۔ ہم نے حکومتی کفائت شعاری پالیسی کو اپنے اوپر نافذ کرتے ہوئے کڑاہی کو پلیٹوں میں ڈال کر ذرا سی بھی کڑاہی ضائع ہونے سے بچائی اور کڑاہی کو بیلٹ باکسز کی طرح خالی کرنے کے بعد بیرے کو سو روپے کا کڑک نوٹ بطور ٹپ دیتے ہوئے پوچھا، اچھا یہ بتاؤ، تم نے ووٹ کس کو دیا تھا؟

جواب میں بیرے نے اپنے کندھے سے میز صاف کرنے کے لیے گندا کپڑا اتارتے ہوئے جواب دیا،
میں بیرا ضرور ہوں، اندھا نہیں ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).