فیض صاحب اب فیسٹیول تک محدود ہو کر رہ گئے


اس سال پانچواں فیض میلہ منعقد ہوا، خواہش تھی مگر گزشتہ ہفتے گھر جانے کی وجہ سے شرکت نہیں ہوسکی۔

گزشتہ دو سالوں میں شرکت کی اور کچھ پروگراموں میں گفتگو سُنی اچھی لگی کچھ پروگرام انتہائی بورنگ بھی سہنے پڑے کہ شاید کچھ اچھا ہو، ہم جیسے ٹائم ٹپاؤ اور کم ٹپاؤ بندوں کے لیے بڑا مشکل ہوجاتا ایسی جگہ انٹر ہوجانا۔ فیض میلے میں میرے جیسے لوگ اس لیے بھی جاتے ہیں کہ بتلایا جاسکے کہ ہمیں فیض اور فیض کے نظریات سے بڑی گہری دلچسپی اور محبت ہے حالانکہ فیض کے ایک دو اشعار کے علاوہ اور کچھ پَلے بھی نہیں ہوتا اکثریت کی محبت کا یہی عالم ہے لیکن فیض میلے کا میرے نزدیک ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں ملک کے بہت سارے دانشور، شعراء سستے داموں فیض مدح کی وجہ سے مل جاتے ہیں جن کے ساتھ تصویر بنائی جا سکتی ہے۔

یہ سوچا تھا کہ فیض میلے پر شریک گفتگو لوگوں کی ویڈیوز مل جائیں گی جس پر اکتفا کرلیں گے باتیں تو وہی پرانی ہی ہوتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں مسائل بھی وہی پرانے ہیں گوکہ فیض کے وقتوں میں ایسے مسائل کا سامنا تبھی نہیں تھا جس طرح آج کل ہے۔ اس وقت فیض و دیگر ترقی پسند شعراء و دانشوروں کو مارا پیٹا جاتا مگر پس زندان غائب نہیں کردیا جاتا بلکہ شرم و حیا تھوڑی بہت موجود تھی کہ سزا جزا کے بعد رہائی بھی مل جاتی مگر وہ شرم و حیا اب تو معدوم ہوچکی ہے۔ اب تو خبر بھی نہیں ہوتی کہ میں کچھ بولوں یا لکھ لوں یا گنگنا دوں تو آگے کیا ہوگا۔

فیض میلے میں شرکت کرنے والے طلبہ دانشوروں کا تعلق ترقی پسند، لبرل، سیکولر اور ڈی ایچ اے ٹائپ سوسائٹیز سے ہوتا ہے اچھا لگتا ہے جب غریب اور پسماندہ علاقوں کی نسبت ڈی ایچ اے، بحریہ ٹائپس سوسائٹیز کے بچوں کو فیض سے محبت اچھی بات ہے مگر فیض میلے میں ان لوگوں کی تھانیداری اور زعم دیکھ کر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ فیض مرحوم ان کے احسانات کے نیچے دبے ہوں گے کہ یہ میلہ کرانے والوں کی محتاجی بھی ایک آزاد خیال شاعر پر کتنی گراں گزرتی ہوگی۔ یہ ہاتھ صاف کرنے والے لوگوں کو نہ تو اب فیض روکتا ہے نہ ان کو یہ سمجھ آتی ہے کہ فیض پاکستان کے ہر کسان، مزدور، غریب، طالبعلم، مذہبی و غیر مذہبی، مظلوم کے لیے آواز بلند کرتے رہے یہاں میلے میں تو آپ لوگوں نے محدود کردیا ہے کہ فیض فقط ہمارا ہے اور فیض کا معاملہ بھی فقط اسی فیسٹیول تک رہ گیا ہے۔

فیض صاحب کو اگر موجودہ حالات سے کسی ذریعے خبریں مل رہیں ہوں گی تو ضرور سوچتے ہوں گے کہ بھلے وقتوں میں واپسی ہوگئی ورنہ ریاست سے لے کر ان کے چاہنے والوں نے حالات زیادہ خراب کردیے ہیں۔

اس بار فیض میلے سے جو سب سے بڑی چیز لیک ہوئی ہے وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کی ویڈیو ہے جس میں وہ ’سرفروشی اور شوق شہادت ”کو ڈھول کی تھاپ اور اپنی سُربھری آوازوں کے ملاپ سے ماحول گرما رہے ہیں۔ مجھے تو یہ نظم اچھی لگی لیکن اس نظم کی مقبولیت نے فیض میلہ کے تین روزہ سارے پروگراموں اور دانشوروں کی ڈیبیٹ ٹاک وغیرہ کو پس پُشت ڈال دیا ہے کہ انہوں نے بھی کچھ نیا کہا، کچھ اچھا کہا کہ مطلب کہا کہا؟

بہرحال فیض کی نظم جو انہوں نے آزادی کے بعد لکھی تھی جیسے اُس وقت تھی پیش خدمت ہے۔

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کی دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہء غم دل

جواں لہو کی پراسرار شاہراوں سے

چلے جا یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہی باہیں، بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت ونور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل وگام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا ستور

نشاط وصلِ حلال وعذاب ہجر حرام

جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن

کسی پہ چارہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).