کراچی کا اپنا قانون ہے، میرے بھائی


مہذب دنیا کے مہذب ملکوں میں ہر قسم کے قا نون پر سختی سے پابندی کی جاتی ہے اور قانون شکنی پر سزا ملنا واجب ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی شکل میں قانون موجود ہے اسی طرح پاکستان کے عروس البلاد کراچی میں بھی موجود ہے جی صرف موجود ہے۔ دنیا بھر کے قانون اپنی جگہ پر کراچی کے قانون کی کیا ہی بات ہے کیونکہ کراچی پھر کراچی ہے اور بس کراچی ہے۔

دنیا بھر میں ٹریفک کے ملتے جلتے اصول یعنی قانون ہے اور کراچی میں بھی کچھ عرصے پہلا تک ایسا ہی تھا، کہ لال بتی پر رکنا ہوتا تھا اور پیلی پر تیاری پکڑنی ہوتی تھی اور ہری بتی پر سرپر سینگ رکھ کر بھاگنا ہوتا تھا، لیکن پھرقانون ٹریفک کی اس تہذیب میں کئی 3 4 چار سو قسم کی تہذیبیں شامل ہوگئی اور پھر کراچی میں قانون کی ایسا بجائی گئی آئی مین رسوائی ہوئی کہ الحفیظ و الامان۔

کراچی دوسرے شہروں سے بہت مختلف ہے تو آخر اس کا قانون کیوں نا مختلف ہوں اور یقینا اس کا قانون بھی بہت مختلف ہے خود ساختہ قانون۔ کراچی شھر کی کئی مرکزی سڑکوں پر چھوٹی موٹی پہاڑیاں بنی ہوئی ہیں چاہے وہ کینٹ اسٹیشن سے متصل روڈ ہو یا کراچی کا بیچ نمائش ( یہ بیچ انگریزی والا نہیں اردو والا ہے ) جس کی وجہ سے کراچی کے شہر یوں کا پہاڑی علاقوں میں جانے کا شوق بھی دم توڑ گیا ہے۔ اسی طرح کراچی شہر کی کئی سڑکوں پر روز انہ کی بنیاد پر مٹی کا ایسا طوفان آتا ہے جو کہ اچھے خاصے مشرقی بندے کو مغربی بنا دیتے ہیں اور تمام چمکانے والی کریموں کی طاقت بھی ان طوفانوں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔

کراچی کے پرانے اور تازہ باسیوں نے پی آئی بی والے فاروق بھائی کے مشہور جملے۔ کراچی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے کی عملی تفسیرکو پیش کرتے ہوئے شہر کی کسی دیوار کو تیزاب سے سیراب کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے اور اپنے عزم و ارادے کی تکمیل کرتے ہوئے شہر کراچی کی ہر دیوار کو مہکا ڈالا، بھیگا ڈالا، جلا ڈالا۔

خیر، خیر کراچی شہر میں پولیس اور عوام کی ملی جلی قانون شکنی کے نتیجے میں جو نئے نئے ڈھٹائی پر مبنی مناظر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں وہ شہر کراچی کے باسیوں کے لئے حیران کن نہیں ہوتے ہیں۔ سلسلہ کچھ یوں ہے کہ کراچی میں پہلے اشارہ لال بتی پر رکا جاتا تھا لیکن اب لال بتی پر رکا ضرور جاتا ہے پر لمحوں کے لئے، اور پھر دائیں بائیں اور آگے کی طرف تاڑ توڑ کر نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں لیکن اگر وہ وائٹ یونیفارم والے حضرت کھڑے ہوتے تو چند لمحے ان کو تاڑا جاتا ہے کہ یہ عقاب کی نظریں آگے پیچھے ہو تو ہم بھی آگے آگے ہو۔

اسی طرح کوئی زندہ ضمیر بندہ اگر کراچی کے کسی گنجان سگنل پر لال بتی کا احترام کرنے کی کوشش اور نیت کرکے قیام کر بھی لے تو پیچھے سے آنے والے محب قانون شکن پاکستانی زور زور سے ہارن بجاتے ہیں۔ اور اچانک سے ہونے والی ہارن بجائی سے وہ شخص اپنی نیت کو توڑنے کا ارادہ، اور ارادے کو اگلے موقع پر موقوف کرنے کی نیت کر لیتا ہے۔

کراچی میں اب اشاروں کی زبان تبدیل ہوکر الگ شکل اختیار کرگئی ہے، یعنی ہری پر تو ڈٹ کر چوڑے ہوکر آگے بڑھنا ہی بڑھنا، پیلی پر کندھے اچکا کر اور دانتوں کو زبان میں دبا کر بھاگنا ہی بھاگنا، اور لال بتی میں اوپر نیچے، آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھ کر تھوڑی نازکی کے ساتھ فرار اختیار کرنا شامل ہیں اور رکنا تو بہرحال شرم کا مقام قرار دیا جائے گا اور اس اقدام اور عمل کے نتیجے میں آپ اور دوسرے ممی ڈیڈی افراد تن تنہا رہ جائے گے سگنل پر۔

کراچی کے شہریوں کے اس طرز عمل نے ان کے نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اگر کوئی قانون پرست اور اصول پرست بندہ غلطی سے یا پھر جان بوجھ کر غلطی سے قانون کی خلاف ورزی نہیں کررہا تو اسے یہ معاشرہ شریف نہیں ممی ڈیڈی سمجھتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ اپنی غلطی کا احساس دلاکر اپنی فرقہ قانون شکنیا میں شامل کر ہی ڈالتے ہیں، بھئی کیا ڈھٹائی سی ڈھٹائی ہے۔

خصوصی نوٹ بحضور تمام نومولود ڈرائیور حضرات و مستورات، جناب گر ارادہ ہے کراچی کی سڑکوں پر پیش آزمائی کا تو یاد رکھیں کہ رائٹ سائیڈ گاڑی تو ہر کوئی چلا ہی لیتا ہے لیکن آپ، جی آپ اگر کراچی کی سڑکوں پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو رانگ سائیڈ گاڑی کواس فکر کے ساتھ چلانا ہے کہ جو رائیٹ سائیڈ سے بہت سی گاڑیاں آرہی ہیں وہ غلط ہے اور میں رائیٹ، کیونکہ ہم کبھی غلط نہیں ہوتے سامنے والے ہوتا ہے، تو مل کر نعرہ لگائیں گے۔ ”لانگ لیو ڈھٹائی، ڈھٹائی کھپے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).