سیکھنا سیکھئے


جو مسلز کام میں نہ لائے جائیں وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ انسانی دماغ بھی اس وقت بھر پور طریقے سے کام کرتا ہے جب اسے چیلنج دیا جائے۔ سپون فیڈنگ سے دماغ کمزور ہو جاتا ہے۔ خود سوچنا، دستیاب معلومات کا تجزیہ کرنا اور اس تجزیے کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے دماغ بہتر کام کرتا ہے۔ اگر مسلز اور دماغ آرام کی حالت میں رہنے کی وجہ سے اپنا پورا آؤٹ پٹ نہیں دے رہے تو کوئی پرابلم نہیں، کوشش کر کے اپنے آپ کو چیلنج دیں، مسلسل مشق کرنے سے آپ اپنی اصل طاقت دوبارہ حاصل کر لیں گے۔

جن پرندوں کو طویل عرصہ پنجروں میں مقیّد رکھا جاتا ہے وہ اپنی اڑا ن میں کمزور ضرور ہوتے ہیں لیکن اڑنا پوری طرح بھولتے نہیں ہیں۔ حالات سازگار ہوتے ہی اور آزاد ماحول ملتے ہی دوبارہ اپنی پرواز کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہم انسان بھی اپنے آپ کو خود ساختہ پنجروں میں بند رکھتے ہیں، اپنی سوچ کو محدود کر لیتے ہیں۔ ہمیں بھول جاتا ہے کہ ہمیں قدرت نے کچھ خاص صلاحیتوں اور خاصیتوں سے نوازا ہے۔ اپنا ماحول، سوچ اور رفقاء بہتر کرنے سے ہم خود کو بہتر کر سکتے ہیں۔

ہم سب زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہ مراحل ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔

پھولوں پر منڈلاتی خوبصورت تتلیاں تو سب نے دیکھی ہیں۔ تتلی کی زندگی کے بھی مراحل ہیں، انڈا، لاروا، پیوپا اور آخر کار تتلی۔ پیوپا سے تتلی بننے کے مرحلے میں پیوپا اپنے غلاف سے نکلنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ جب پیوپا کی جدو جہد کامل ہو جاتی ہے تو وہ اپنے غلاف سے باہر نکل آتا ہے۔ اگر اس مرحلے میں کوئی انسان اپنی طرف سے مدد کی غرض سے پیوپا کا غلاف چاک کر کے اسے باہر نکال دے تو تتلی بننے اور پر ہونے کے باوجود وہ کبھی پرواز نہیں کر پائے گا۔

انڈے سے چوزہ نکلنے کا مرحلہ بھی سب کو معلوم ہے۔ مرغی ان انڈوں کو سینچتی ہے۔ اپنے جسم کی حرارت سے انھیں گرم رکھتی ہے۔ مخصوص میعاد مکمل ہونے پر چوزہ خود جدوجہد کر کے انڈے سے باہر آتا ہے۔ اگر کوئی ہمدردی میں انڈے کا خول توڑ کر چوزے کو باہر نکال بھی دے تو چوزہ کمزور ہی رہتا ہے اور زندہ نہیں رہتا۔

پرندے اپنے بچوں کے منہ میں کھانا ضرور ڈالتے ہیں لیکن پھر انھیں اڑنا سکھانے کے لئے انھیں گھونسلے سے باہر بھی دھکیلتے ہیں۔ پھر وہی پرندے اپنی جدوجہد سے دانہ ڈھونڈنا اور اڑنا سیکھ کر خود مختار ہو جاتے ہیں۔

انسان کی جدوجہد کے دنوں میں بہت سے لوگ اس کی مدد کرتے ہیں۔ جب بچہ لکھنا سیکھتا ہے تو اسے لکھنے میں بے حد دشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں ماں، باپ، اساتذہ، بڑے بہن بھائی سب مل کر اسے لکھنا سکھاتے ہیں۔ اگر یہ سب بچے کی اس وقت کی دشواری دیکھتے ہوئے ہمدردی میں اس کی کاپی میں خود لکھنا شروع کر دیں تو بچہ خود لکھنا نہیں سیکھ پائے گا۔ جو ہمت خود کرنی ہے وہ خود ہی کرنی ہے۔ سکھانے والا، بتانے والا، رہنمائی کرنے والا راستہ دکھا سکتا ہے، راستے میں آنے والے نشیب و فراز سے پیشگی آگاہ کر سکتا ہے لیکن اس راستے پر آپ کے لئے چل نہیں سکتا۔ چلنا آپ نے خود ہے۔

آج کل تو زندگی انٹرنیٹ نے بہت آسان کر دی ہے۔ اپنے کام کی چیزوں کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈ نکالنے کا ہنر جس کو آ گیا وہ کبھی پیچھے نہیں رہ سکتا۔ معلومات کا خزانہ ہے جو ہم سب آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب معلومات، تعلیمی اور تحقیقی مواد دستیاب ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی حالت نہ بدل سکیں تو اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ ہماری زندگی صرف وہ شخص بدل سکتا ہے جو اس وقت نظر اتا ہے جب ہم آئینے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں۔

لا تعداد لوگوں کی اجتما عی کوششوں سے ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہم علم کے سمندر کے کنارے پر تو کھڑے ہو گئے ہیں لیکن اب اس میں تیرنا ہمارا اپنا کا م ہے۔ ہماری جگہ کوئی نہیں تیر سکتا۔ تو اپنی زندگی کی گاڑی کا سٹیرنگ وھیل خود سنبھال لیں۔ لوگوں سے مشورے لیں لیکن فیصلہ خود لیں اور اس فیصلے کی ذمہ داری بھی لیں۔ درست فیصلے بہتری لاتے ہیں اور غلط فیصلے سبق سکھاتے ہیں۔

بدلاؤ اندر سے آتا ہے، باہر سے نہیں۔ کوئی کتنے داؤ پیچ سکھا دے اپنی جنگ خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ تو دوسروں پر انحصار کرنا چھوڑیں اور خود پر بھروسا کریں۔ اگر آپ نے اپنی نا کامیوں سے سبق سیکھ لیا ہے، اور خود سے مایوس نہیں ہیں تو آپ ناکام نہیں ہیں، آپ کامیاب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).