کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے


گاؤں میں میرا معمول تھا کہ میں صبح صبح سیر کے لیے گاؤں کے مشرق میں واقع راجباہ کی طرف نکل جاتا تھا۔ راجباہ بڑی نہروں سے دیہات کی طرف جانے والی آبی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ آپ اسے نہر کا ایک بچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ راجباہ سے پھر کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے اور چھوٹی آبی گزرگاہیں بنائی جاتی ہیں جن کو ”کھال“ کہا جاتا ہے۔ مذکورہ راجباہ کے ایک کنارے پر پختہ سڑک بنی ہوئی ہے، ساتھ ہی درختوں کی لمبی قطار، سنگتروں کا ایک باغ اپنی بہار دکھانے کے لیے موجود ہے، گویا قدرتی طور پر ایک بہترین سیرگاہ کی طرف آپ کے قدم خود بخود اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

روزانہ کی طرح آج بھی میرے قدم اسی راجباہ کی طرف اٹھے تھے۔ چند قدم چلنے کے بعد ایسے لگا کسی نے میرے قدموں کا رخ موڑ دیا ہو اور میرا رخ گاؤں کے مغرب میں واقع آموں کے باغ کی طرف ہو گیا۔ کئی ایکڑ پر مشتمل یہ باغ بھی ایک شاندار سیر گاہ کی تعریف پر سو فیصد پورا اترتا ہے۔ اس باغ کے شمال کی طرف اس کو سیراب کرنے والی چھوٹی آبی گزرگاہ یعنی کھال ہے جو سیمنٹ کا بنا ہوا ہے۔ اس کے کنارے پہنچا تو ایک عجیب منظر دیکھا، ایک پِلّا (کتّے کا چھوٹا سا بچہ) پانی میں گرا ہوا تھا اور میری طرف التجایا نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے اپیل کر رہا ہو کہ مجھے یہاں سے نکالو۔

اس کی کپکپاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ پانی میں کافی وقت گزار چکا تھا، شاید رات سے ہی اسی حالت میں تھا۔ اگر یہ کھال کچا ہوتا تو وہ اس کے کھردرے کناروں کی وجہ سے آسانی سے باہر نکل آتا، لیکن سیمنٹ کی وجہ سے اس کے کناروں اور دیواروں پر چکناہٹ اور پھسلن پیدا ہو گئی تھی اور وہ جب بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اس پھسلن کی وجہ سے دوبارہ پانی میں گر جاتا۔

میں نے آم کے درخت سے ایک ٹہنی توڑ کر اس کے آگے رکھی۔ اسے سمجھنے میں بس چند لمحے ہی لگے کہ میں آم کی ٹہنی سے اسے مارنے کی بجائے اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے فوراً ہی ٹہنی کی مدد سے باہر آنے کی تگ و دو شروع کردی۔ افسوس اس کی یہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ میں نے پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھا تو خوش قسمتی سے ایک شاپر نظر آ گیا۔ میں نے اس شاپر کا دستانہ بنایا اور اسے پکڑ کر پانی سے باہر نکال دیا۔ اس نے میرا شکریہ بھی ادا نہیں کیا اور وہاں سے اس قدر تیزی سے بھاگا کہ ایسا لگا کہ یہ سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لے رہا ہے۔

میرا رخ کس نے اچانک مشرق سے مغرب کی طرف موڑ دیا، اس کھال کی طرف مجھے کون لے کر گیا، پھر بائی چانس شاپر کا وہاں پایا جانا اور اس طرح پِلّے کا پانی سے باہر آنا،

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔

ایم۔ اے معاشیات کرنے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، بیروزگاری ابھی وبالِ جان نہیں بنی تھی، گویا بیروزگاری ابھی ”شیر خوارگی“ کے مرحلے میں تھی۔ ساتھ والے گاؤں سے ملک ابراہیم جو کہ مقامی کیٹل فارم میں ڈرائیور تھا، والد صاحب سے ملنے کے لیے آیا۔ والد صاحب مصروف تھے، چنانچہ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں، اچانک پوچھنے لگا کہ میں نے قریبی شہر میں موجود کوہ نور ایڈیبل آئل ملز میں نوکری کے لیے درخواست تو نہیں دی؟

میں نے درخواست تو دے رکھی تھی۔ میرے ہاں کہنے پر کہنے لگا کہ پھر بھاگو آج وہاں تمہارا انٹرویو ہے۔ اس کی تفصیل یہ تھی کہ وہ ہر شام مقامی کیٹل فارم کا دودھ فروخت کرنے شہر جاتا تھا وہاں اس فیکڑی کا ایک اہلکار بائی چانس اسے ملا، اس نے کہا کہ تمہارے علاقے کا کوئی سیّد لڑکا ہے، اس نے نوکری کے لیے درخواست دی تھی، اس کا صبح انٹرویو ہے، اس کو اطلاع دینے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اب یہ بائی چانس ہی والد صاحب کو ملنے آیا اور کافی وقت گزارنے کے بعد اسے اچانک یاد آیا کہ کہیں وہ سیّد لڑکا میں ہی تو نہیں، وہ میں ہی تھا کیونکہ جب میں بھاگم بھاگ فیکٹری میں پہنچا تو انٹرویو جاری تھے، انٹرویو ہوا اور اگلے دن میں فیکٹری ملازم کی حیثیت سے وہاں حاضر تھا، ساری کڑیاں کیسے اپنے آپ ہی ملتی گئیں،

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔

ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب بتا رہے تھے کہ میں کالج میں ملازمت کے لیے انٹرویو میں ناکام ہو گیا۔ کچھ اور لوگ بھی دوسرے مضامین کے انٹرویو دے رہے تھے۔ میں ناکامی کے بعد وہیں بیٹھا رہا۔ سب کے انٹرویو ہو گئے، کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ میری طرح ناکام۔ میلہ اجڑ گیا، سب اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے، میرے قدم وہیں رکے رہے۔ اچانک انٹرویو کمیٹی کا ایک بندہ باہر آیا اور مجھ سے میرا مضمون پوچھا، میرے بتانے پر مجھے اندر بلایا اور تقرری کا آرڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔

سب مضامین میں تقرریاں مکمل ہو گئی تھیں، صرف میرے والے مضمون کی سیٹ باقی تھی۔ شاید وہ بھول گئے تھے کہ ہم پہلے اس بندے کو مسترد کر چکے ہیں یا پھر کوئی امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے اس کی لاٹری نکل آئی اور اسے ملازمت مل گئی۔ اب وہ کامیاب ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ناکام ہونے کے بعد ان کے قدم کس نے روکے کہ گھر نہیں جانا، انٹرویو کمیٹی کے ارکان کی آنکھیں کس نے بند کیں کہ وہ دوبارہ اسی بندے کو ملازمت دیں جس کو وہ مسترد کر چکے تھے۔

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).