گلگت بلتستان کی ثقافت اور مخلوط رقص کی مذمت


یہ بات کہنا بہت آسان ہے کہ مخلوط رقص کا گلگت بلتستان کی ثقافت سے تعلق نہیں ہے اور مذہبی حوالے سے بھی اس کی انتہائی ممانعت ہے۔ گوکہ ثقافت بذات خود ایک پیچیدہ شے ہے لیکن جب ایسی کسی بھی شے کا سہارا اور لبادہ مذہبی اوڑھا جائے تو مزید سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یوں یہ معاملہ انتہائی آسان اور سہل ہے کہ مخلوط رقص کا تعلق علاقے کی ثقافت اور مذہب سے نہیں ہے۔ لیکن جب ساری صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو اور ہم آسانی اور سہل انگاری میں اس کا حل کیسے ڈھونڈیں۔ گلگت بلتستان میں ہر سال مخلوط رقص کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا ہوتا ہی رہتا ہے، گزشتہ سال بھی ’عظیم ثقافت‘ پر مخلوط رقص کے ذریعے بمباری کی گئی اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب آغا خان یونیورسٹی کراچی میں چاروں صوبوں اور جی بی کے روایتی رقص پر دوبارہ ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں معاشرتی معمولات سے نئی شے معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی ہے، معاشرتی آنکھ ایسے شے کو دیکھتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہے۔ رقص کے سالانہ واقعات کی وجہ سے سوشل میڈیا میں ’ثقافت کے علمبردار‘ اور ’مذہب کے ٹھیکیدار‘ شمشیر بے نیام بنے ہوئے ہیں۔

کمزور معاشرتی جڑوں کی حامل ثقافتوں کی ہمیشہ اثرات پر نظر ہوتی ہے وجوہات پر کسی کا کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ تین بڑے مسالک کی جانب سے مکمل طور پر ہمیشہ سے اس کی مذمت کیے جانے کے باوجود کوئی نہ کوئی محفل جم ہی جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے سے قبل وقت کی رفتار اور ’ثقافت‘ کی خصوصیات پر نظر دوڑانا ناگزیر ہے۔

گلگت بلتستان میں اگر یہ دعویٰ کیا جائے تو یقینا صحت مند بحث ہوسکتی ہے کہ ’ہماری کوئی ثقافت ہے ہی نہیں‘ ۔ جن روایات، رہن سہن، اخلاقیات کے علمبردار کہلائے جاتے تھے ان میں سے روز مرہ کی زندگی میں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کی روایتی پوشاک میں اس وقت ’دولہے‘ کی وہ واحد ٹوپی رہ گئی ہے جس میں شانٹی لگائی جاتی ہے، بصورت پینٹ، پتلون، شلوار، قمیض سے لے کر جوتوں اور تسموں تک کہیں پر ثقافت نمایاں نہیں ہے۔

ثقافت اپنی ہیئت میں ایک علم، یقین، فن، اخلاقیات، روایات کا مجموعہ ہے جو کہ انفرادی شخص کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے اب انفرادی شخص میں ہمیں اگر کسی میں ثقافت نظرنہیں آئے گی تو کراچی کی ’نمائندگی‘ پر ثقافت کیسے ڈھونڈیں۔ برصغیر کے مشہور ترین عالم دین مولانا ابولکلام آزاد کے مطابق داڑھی بھی ثقافت کا حصہ ہے، لیکن وہ ثقافتی داڑھی آج کسی عجائب گھر یا تاریخی ورثے کے دفتر میں بھی میسر نہیں ہے۔ اگر اس حوالے سے بھی کوئی مناسب رہنمائی مل جائے تو جزاک اللہ کہ ایران، سعودیہ، افغانستان سمیت دیگر ممالک میں اپنا پردہ کے نظام موجود ہے، لیکن گلگت بلتستان کا روایتی پردہ کون سا ہے اور اس کے لئے مقامی زبان میں کون سا لفظ ہے، یا یوں کہ آج کے اس چست برقعہ سے قبل پردے کا کیا نظام تھا۔

وقت کی دھار میں تیزی سے بہتے ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے ’ثقافت‘ کے خصوصیات پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ ثقافت پیدائشی نہیں ہوتا ہے بلکہ معاشرے سے سیکھا جاتا ہے اور نہ ہی یہ میراث ہوتی ہے اس ’سیکھنے‘ میں کئی چیزیں غیر ارادی طور پر بھی آجاتی ہے جن میں ایک بڑا ذریعہ میڈیا بھی ہے۔ ثقافتوں کی دوڑ میں ہمیشہ مضبوط جڑوں کی ثقافت اپنے اثرات دیگر کمزور ثقافتوں پر چھوڑ جاتی ہے۔ ثقافت ایک فرد سے بھی شروع ہوسکتا ہے اور ایک گروہ سے بھی، جو بتدریج دیگر افراد یا گروہوں تک منتقل ہوتا ہے۔

ثقافت کی ایک اہم ترین خصوصیت ’علامات‘ ہے جن میں زبان کی بڑی اہمیت ہے، اس دھبے اور بدقسمتی کو کہاں سے اور کیسے چھپائے کہ گلگت بلتستان میں ’ڈوماکی زبان‘ معاشرتی رویہ کی وجہ سے نیست و نابود ہوگئی ہے۔ ثقافت کے تمام عناصر ایک دوسرے سے ملے جلے ہوتے ہیں، وہ عناصر جن کا بالائی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے ان میں ہمارا علم، یقین، فن، قانون، رواج سبھی ختم ہوئے ہیں، آج کے سبھی عناصر ’با اثر‘ ثقافتوں سے ادھار یا مستعار لائے ہوئے ہیں۔

اگر ثقافت وہی ہوتی ہے جو باپ دادا اور پردادا کے دور میں تھی تو آج ہمار ا لباس اور پوشاک سمیت مذہبی عقائد بھی یہ نہ ہوتے جو آج ہیں، یہی ثقافت کی بڑی نشانی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے ورنہ بدلتے وقت کے ساتھ نام و نشان بھی پریشانی اور ہیجانی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہاں یہ سوالات نہیں اٹھائے جارہے ہیں جنہوں نے ثقافت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے

داور حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

سوشل میڈیا میں طوفان برپا کرنے والوں کی طرح دو الفاظ میں اس کی مذمت کرنا آسان ہے لیکن جب گھر گھر موبائل، انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن، انڈین ڈرامے، ترکش ڈبنگ ڈرامے، سمیت فحش مواد تک پہنچ گیا ہوں اس میں مذمت کی بجائے سوال اٹھاتے ہوئے فکر کی دعوت دینا عقلمندی ہے۔ اور جس قسم کی زبان اس سلسلے میں استعمال کی جارہی ہے وہ تو ہمارے اخلاقیات کا بھی حصہ نہیں ہے۔

اگر اس ساری کہانی کو یوں ختم کیا جائے تو بھی کسی حد تک مدلل ہوسکتی ہے کہ ’یا تو سارے ہنزہ کی تقلید کرو یا تو سارے دیامر کی تقلید کرو‘ ۔ کیونکہ اب بھی گلگت بلتستان کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں فحاشی، ثقافت، روایات جیسی چیزوں کی اپنی اپنی فہم موجود ہے۔ ضلع دیامر میں خواتین کو کھلے عام بازار چلنے کی بھی اجازت نہیں ہے جبکہ ضلع ہنزہ میں خواتین ہوٹل بھی چلاتی ہیں اور دکانداری بھی کرتی ہے، اور یہ انتہائی معمول کی بات ہے۔

مجھے ایک صاحب نے اس میں حوالے سے سیاسی لطیفہ بھی بھیجا ہے کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ دیگر صوبوں کے ہمراہ نمائندگی کا ہے، ہر فورم پر گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن جب چار صوبوں کے ساتھ گلگت بلتستان کو بھی ایک قومی، معروف جامعہ میں نمائندگی دی گئی تو ہنگامہ ہوگیا لہٰذا ہم نمائندگی کے اس دعوے اور مطالبے سے دستبردار ہوتے ہیں۔

بہرحال گلگت بلتستان کی سماجی اور سیاسی صورتحال کے لئے تعصب کے بتوں کو توڑ کر سرجوڑنا ہوگا۔ ورنہ یوں لوگوں کے ذاتی افعال کی بنیاد پر ثقافت کی دھجیاں اڑاتے دیکھا نہیں جاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں آج بھی خواتین کی خرید وفروخت ہوتی ہے لوگ چپ ہیں، کم عمری میں ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں لوگ چپ ہیں، مرضی کے بغیر زبردستی شادیاں ہوتی ہیں لوگ چپ ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہے لوگ چپ ہیں، ہر قسم کی بدعنوانی یہاں پائی جاتی ہے لوگ چپ ہیں، جنسی زیادتیوں کے کہانیاں صرف لڑکیوں تک محدود نہیں بلکہ لڑکوں تک بھی آپہنچی ہے لیکن لوگ چپ ہیں۔ جب ان تمام معاملات کو قالین کے نیچے چھپا کر رقص کے خلاف باتیں کی جائیں گی تو اس کی کسی دلیل کی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).