میں دوسال کا تھا اور ماشاءاللہ اب سولہ سال کا ہوں


ایک دن یونیورسٹی سے واپسی پر میں ابھی کیری میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ ایک بچہ مانگنے کے لیے آیا۔ کیری والے انکل نے کہاکہ جاؤ ادھر سے۔ لیکن بچہ نہیں گیا وہ ادھر ہی کھڑا مانگتا رہا انکل نے کہا اچھے بھلے ہوکوئی کام کاج کرو۔ تو بچے نے کہاکہ کام والے تھوڑے پیسے دیتے تھے اس لیے میں نے کام چھوڑ دیا (شاید اس بچے نے تھوڑے عرصہ کہیں کام کیا ہو گا) ۔ وہ بچہ ابھی بھی بضد ہو کر کھڑا تھا انکل نے ذرا سخت لہجے کا استعمال کیا کہ چلو جاؤ بھاگو ادھر سے!

تو بچے نے جو جواب آگے سے دیا اس کے اس جواب نے جو اس نے بڑے فخریہ انداز میں اپنی زبان سے ادا کیا تب اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا غرور تھا۔ جو مجھے لکھنے کے لیے ایک نیا موضوع بھی دے گیا۔ وہ جملہ یہ تھا کہ ”میں دو سال کا تھا جب سے مانگ رہا ہوں اور اب ماشاءاللہ سولہ سال کا ہوں“۔ یہ تو تھے اس بچے کی زبان سے کہے گئے چند الفاظ لیکن مجھے لکھنے اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کہ آخر دو سال کا بچہ قصور وار تھا یا ہم؟

جب اس نے بھیک مانگنا شروع کی تو کیا وہ بچہ قصور وار تھا کیا دو سال کی عمر میں اپنا پیٹ پالنا اس کی ذمہ داری تھی؟ چلے دو سال کا وہ نہ ہو گا یہ صرف اس کی زبان سے ویسے نکلا ہو گا کہ میں دو سال کا تھا۔ پھر بھی جب اس کے والدین یا اس معاشرے نے اس کو بھیک مانگنے پر لگایا ہو گا تو وہ بہت چھوٹا ہو گا۔ بھیک مانگنا اب اس کے لیے ایک پیشہ بن چکا ہے۔ اور اس کو اپنے اس پیشے پر فخر ہے۔ وہ دوسروں کو اب فخر سے بتاتا ہے کہ مجھے اتنے سال ہو گئے ہیں اس پیشے سے منسلک ہوئے۔

اور آگے اس کی نسل سے آنے والے لوگ بھی شاید اس پیشے کو فخر سے اپنائے گے۔ اور وہ اپنے بچوں کو فخر سے بتائے گا کہ میں دو سال کی عمر سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر قصور وار کون ہے؟ میں، آپ یہ معاشرہ اور حکومت۔ جی ہاں ہم سب ہی کہی نہ کہی کسی نہ کسی طرح قصور وار ہیں۔ اگر کوئی بچہ بھیک مانگنے کے لیے ہمارے پاس آتا ہے۔ تو ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ یہ بچہ واقعہ مستحق ہے یا نہیں۔ اور ہم بنا سوچے سمجھے اس کو پیسے دے دہتے ہیں (شاید وہ اس دن پہلی دفعہ مانگنے آیا ہو اور آپ وہ پہلے انسان ہو جس نے اس کو بھیک دی ہو) وہی سے چھوٹے بچوں کو بھیک مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

(یہاں ہم قصور وار ہیں یا نہیں یہ اللہ بہتر جانتا ہے ) اور کچھ بچوں کو تو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اور ان کو مانگنے کے باقاعدہ گر سکھائے جاتے ہیں۔ جو کہ ہمارے لیے شرمندگی کی بات ہے۔ اگرچھوٹے بچوں کو کام پر لگا دیا جائے۔ تو مالکان ان کو اتنی اجرت نہیں دی جاتی جتنی ان کی اجرت بنتی ہے۔ اگر اس بچے کو بہتر اجرت دی جاتی تو شاید وہ بھیک مانگنے کی طرف لوٹ کر نہ آتا۔ اور ویسے بھی ہم child labour کا رونا روتے ہیں کہ child labour پر پابندی ہونی چاہیے۔

اور یہ لاء بھی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری نہیں کروائی جائے گی۔ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے child labour پر پابندی ہونی چاہیے۔ لیکن جناب والا اس کا کوئی متبادل بھی ہونا چاہیے کہ جو والدین اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے اور مجبوری میں ان سے کام اور بھیک منگواتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ اور نہ صرف child labour پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ بچوں کے بھیک مانگنے اور ان سے بھیک منگوانے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔

یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ایسے طبقے کے لیے کوئی انتظامات کرے۔ ان والدین کے لیے جو اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کر سکے ان کو کہی نہ کہی چھوٹی موٹی ملازمت دینی چاہیے اور بچوں کو تعلیم اور زندگی کی بنیادی ضروریات مفت پوری کر نی چاہیے (نہ کہ صرف اپنی تجوریاں اور پیٹ بھرتی رہے ) اور یہی جمہوری حکومت میں ہونا چاہیے کہ وہ غریب عوام کو بنیادی ضرورت زندگی فراہم کرے ان کی زندگی کی کم از کم بنیادی ضروریات تو پوری کرے۔

غریب کی خواہشات کی تکمیل تو دور کی بات ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بھیک مانگنے کوجڑ سے ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں اور اس کا متبادل بھی ڈھونڈے جو کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ اور یہی جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ حضرت عمر (رض) کی حکومت کی مثال ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اور اگر ہم نے بھیک مانگنے کو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس طریقہ نہ اپنایا۔ تو نہ جانے آنے والے وقت میں کتنے بچے فخریہ انداز میں اپنی زبان سے یہ جملہ کہتے نظر آئے گے کہ ”میں دو سال کا تھا جب سے مانگ رہا ہوں اور اب ماشاءاللہ میں سولہ سال کا ہوں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).