کسی بڑے فیصلے کا امکان؟


حزب اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان سے گلو خلاصی ہو جائے کیوں؟ کیونکہ وہ صرف اس کا احتساب کرتا ہے اپنے ارد گرد موجود بد عنوان لوگوں کو نہیں پوچھتا۔ اب اس نے ( حزب اختلاف ) عوامی مسائل کا بھی تڑ کا لگا دیا ہے کہ دیکھیں جی مہنگائی و بے روزگاری نے عوام کا برا حال کر دیا ہے۔ لہٰذا اسے حکومت ختم کر کے وسط مدتی انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے؟

عمران خان کو گھر بھجوانے کے لیے جے یو آئی (ف) نے دس بارہ دن اسلام آباد میں ایک تاریخی دھرنا بھی دیا ہے مگر نتائج بر آمد نہ ہونے پر اب اسے پورے ملک میں پھیلا دیا ہے جسے منصوبہ نمبر دو کہا جا رہا ہے۔ یعنی پلان بی اس کے بعد سی اور ڈی بھی ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہے کہ عمران خان استعفیٰ دے تاکہ وہ اور ان کے جوڑی دار دوبارہ اقتدار میں آئیں اور آ کر موجیں کریں۔ وہ ٹھاٹھ باٹھ جو آج ان سے کوسوں دور ہو چکے ہیں میسر آ سکیں۔

اب تک کے سیاسی منظر نامے کے مطابق عمران خان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں دیکھی جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے اپنے بعض ساتھی و اتحادی اس کے قریب نہیں رہے۔ انہیں چند ایک تحفظات ہیں ان کی کچھ خواہشات بھی ہیں۔ مثال کے طور سے چوہدری برادران کی خواہش ہے کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنیں عثمان بزدار وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں ہیں کہ ان سے بیورو کریسی سنبھالی نہیں جا رہی جس سے صوبے کے اندر بے چینی شدید ہے۔

جاوید خیالوی نے ان کے اس نکتے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب صاف ہے کہ بیورو کریسی ان کے ساتھ ہے لہٰذا یہ جو سب ہو رہا ہے اس میں انہیں بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پھر یہ جو بڑے بڑے تاجر ہیں ان میں سے بھی کچھ ان کے ہمنوا ہو سکتے ہیں ویسے زیادہ تر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے لہٰذا مل جل کر اس حکومت کو ناکامی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں ہی پوری حزب اختلاف شور مچا رہی ہے اور اپنے ”سیاہ کارناموں“ کو فراموش کر رہی ہے جو اس نے ماضی میں اپنے اپنے ادوار میں سر انجام دیے۔

جاوید خیالوی کا کہنا بڑی حد تک درست معلوم ہوتا ہے مگر اس وقت وہ خود کو پوتر اور دور اندیش ثابت کر رہی ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کو ڈانوں ڈول ہونے نہیں دیا۔ ادھر اُدھر سے اور بھاری قرضے لے کر معاشی چکر کو حرکت میں رکھا۔ یہی تو رونا ہے کہ ہر کام عارضی بنیادوں پر ہوتا رہا۔ مستقلاً کچھ نہیں کیا گیا جو کیا گیا وہ ناپائیدار تھا اور اس میں ذاتی دلچسپی تھی یعنی کمیشن کی خاطر کیا گیا میں اپنے کئی کاموں میں عرض کر چکا ہوں کہ پچھلی حکومتوں نے ہرادارے کے اندر اپنے خاص لوگ بٹھا رکھے تھے جنہیں خوب نوازا جاتا مافیازکو جنم دیا گیا ان کی دھاک بٹھانے کے لیے محکموں کو بھی اشارتاً سمجھایا گیا کہ جب تک ان کی طرف سے اوکے نہ کہا جائے عوامی کام نہیں ہوں گے۔

اس طرح ایک ایسا کلچر پروان چڑھا جس میں تمام اختیارات چند لوگوں کے پاس تھے اور وہ اپنی من مرضی کرتے کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا کوئی روکنے والا نہیں تھا اور کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا قبضہ گروپوں نے اندھیر مچائے رکھا اب بھی وہ سلسلہ رکا نہیں اکادکا واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ بھتہ خوری بھی تھوڑی بہت ہوتی نظر آتی ہے۔ سرکاری زمینون کو بھی کہیں کہیں ہتھیایا جاتا ہے مگر اب ان کی رفتار بہت سست پڑ گئی ہے۔

خیر حزب اختلاف کو دکھ اس بات کا ہے کہ ان کے ہاتھ سے یہ سب کیسے نکل گیا اس نے تو اگلے سو برس تک کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی لوٹ مار کا بازار سجائے رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بیچ میں عمران خان آ گیا اور اس نے سارا کام خراب کر دیا۔ ہر منصوبہ ناکام بنا دیا لہٰذا اب ایسی تمام سیاسی جماعتیں اس کے خلاف ہیں اور اس پر حملہ آور ہیں۔ پہلا حملہ وہ اسلام آباد پر دھرنے کی صورت میں کروا چکی ہیں باقی ہونے والے ہیں۔

تاکہ موجودہ حکومت کا خاتمہ ہو سکے اور ایک قومی حکومت وجو د میں آئے۔ کچھ ایسا لگ بھی رہا ہے وگرنہ چودہریوں کا رد عمل شدید نہ ہوتا انہوں نے ایسی ایسی باتیں کر دیں کہ جن کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ انہوں نے جنرل پاشا کے حوالے سے بھی کہہ دیا کہ وہ ان کے بندے تو ڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کروا رہے تھے اس پر انہوں نے شکوہ بھی کیا؟

اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مسلم لیگ (ق) ایک باقاعدہ سیاسی جماعت ہے جس کی توڑ پھوڑ نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ جماعتیں بڑی مشکل سے بنائی جاتی ہیں ہنسی آتی ہے کہ جس جماعت کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور پروان چڑھایا آج وہ سیخ پا ہے اور آئندہ کیا ارادہ رکھتی ہے اس کا بھی کچھ کچھ علم ہے؟

بہر حال اس بد عنوان اور استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے عمران خان نے قدم بڑھانا چاہے ہیں مگر اس کو قائم رکھنے والی سیاسی جماعتیں اس کی راہ میں آن کھڑی ہوئی ہیں ان کا ہی گلہ کیوں جو لوگ (زیادہ تر ) خود عمران خان کے دائیں بائیں ہیں وہ بھی تو سٹیٹس کو کے حامی ومحافظ ہیں۔ انہوں نے شروع دن سے خان کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھائی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر منتخب نہیں ہو سکے مگر عمران خان کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور خان صاحب یہ سمجھے کہ یہ ان کے خیر خواہ ہیں جبکہ ان کا مطمح نظر یہی تھا کہ نظام بدلنے کی بات کرنے والا اب عمران خان کے بعد کوئی نہیں لہٰذا اسے عوام کی نظروں میں گرا دیا جائے۔

اس میں وہ کامیاب رہے اب عوام کی غالب اکثریت عمران خان سے نالاں ہے کہ ان پر اس قدر ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ کہ ان کی زندگیاں مختلف خطرات کی زد میں ہیں۔ جینا واقعتا محال ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے ٹیکسوں کے لگانے کے مشورے ان ہی کے ساتھیوں نے دیے ہوں گے جو آج ان سے آنکھیں پھیر رہے ہیں اور موقع کی تلاش میں ہیں کہ کب کوئی واقعہ پیش آئے اور وہ ترازو کے دوسرے پلڑے میں جا گریں۔ اگرچہ وضاحتیں بھی کی جا رہی ہیں مگر بے سود جب تیر کمان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتا جو دراڑ آجائے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کیا سوچ رہے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان آسانی سے شکست قبول نہیں کرے گا وہ کھڑا ہو گا حالات کے سامنے۔ عین ممکن ہے وہ صدارتی نظام کی طرف چلا جائے اس کی بازگشت بہت پہلے بھی سنی جا رہی تھی کہ آخری موقع کے طور سے موجودہ نظام کو بہتر بنانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی مگر اس میں ناکامی ہوئی لہٰذا اب تیزی سے اس کی جانب بڑھا جائے گا؟

ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ اتحادوں کی حکومتیں زیادہ دیر نہیں چل سکتیں پھر جب بد عنوان عناصر کی ان میں نمائندگی بھرپور ہو اور انہیں اپنی کم علمی و نا اہلی کی بناء پر ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑیں لہٰذا صدارتی نظام میں کم از کم اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا بھی رولا نہیں رہے گا اور ملک کو جس طرح کے ٹیلنٹ کی ضرورت ہو گی وہ اسے دستیاب ہو گا۔ کسی ایم این اے اور ایم پی اے کے ناز نخرے برداشت بھی نہیں کرنا پڑیں گے کیونکہ انتخابی جمہوریت کو کسی کو منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ جو آئے روز بلیک میل کرتی ہے۔ حرف آخر یہ کہ لگ رہا ہے کہ عمران خان کوئی بڑا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔ جو ملک و قوم کے لیے بہتر ہو گا۔ اب سب کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں امید ہے وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).