عدیلہ سلیمان اور آرٹ دشمنی کی روایت


کراچی میں ’ کِلنگ فیلڈ آف کراچی ‘کے عنوان سے آرٹسٹ عدیلہ سلیمان کی نمائش پر ریاستی اداروں کے ردعمل سے اس بات کا اعادہ ہوا کہ ہم آرٹ دشمن ہیں۔ اس واقعے کے بارے میں مضامین رقم ہو رہے ہیں، احتجاج کیا جا رہا ہے اور ہمیں ممتاز مصور صادقین کی یاد آرہی ہے جن کی تصویروں کو فحش قرار دے کر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ سنہ 1976 کی بات ہے۔ اس ثقافتی سانحے کی ہماری تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ نامور سکالر اور نقاد سراج منیر نے اپنے مضمون میں اسے ملک کی تخلیقی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیا۔

ان کے بقول” اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کی تخلیقی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ کون سا تھا تو میرا جواب ہوگا کہ چند برس اُدھر صادقین کی تصویری نمائش پر کالج کے طلبہ کا حملہ۔ یہ چیز منٹو کے افسانوں پر چلنے والے مقدمات سے زیادہ تباہ کن اور موثر ہوئی اور اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے بعد نمائشوں کا مزاج ہی بدل کر رہ گیا۔ اس واقعے کی اہمیت اس امر میں ہے کہ فنی نمونے کے بارے میں فیصلے کا محور درجہ دوم کے مجسٹریٹ کی سطح سے منتقل ہوکر انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کی یونین کے سربراہ تک آ گیا اور اس کی رائے فن کی ماہیت کے بارے میں موثر ٹھہر گئی۔ اس بات نے فنی شعور پر ایک تیزابی اثر ڈالا ہے۔ “

صادقین کے فن پاروں سے ’حُسن سلوک ‘ کے بارے میں ممتاز ادیب انتظار حسین نے ’مشرق ‘اخبار میں اپنے کالم میں لکھا :

 ”آج کل تو شہر میں صادقین کا چرچا ہے۔ اس مصور نے اپنی نئی تصویروں میں وہ گُل کھلایا کہ کم از کم ایک حلقے میں تو قیامت اٹھ کھڑی ہوئی، فحاشی کی تہمت لگی۔ پھر چلیو دوڑیو ہوئی۔ مظاہرے، اخباری بیان، کالم، پھر ادھر سے کچھ ادیبوں کی غیرت نے جوش مارا، کچھ آرٹسٹوں نے تاﺅ کھایا۔ صادقین کی حمایت میں ایک بیان ادیبوں نے جاری کیا۔ ایکوئٹی نے کروٹ لی اور صادقین کے حق میں آواز اٹھائی۔ “

اس کالم میں ایک مشہور صحافی کا ذکر بھی ہے جو صادقین کے فن سے متعلق کچھ نہیں جانتا اورتسلیم کرتا ہے کہ وہ فنِ مصوری سے ناواقفِ محض ہے، لیکن اس کے باوجود تصویروں پر ’ماہرانہ‘ رائے دینے سے باز نہیں آتا۔

 صادقین کی تصویروں کی نمائش پنجاب آرٹ کونسل میں ہو رہی تھی جب بقول کشور ناہید ”جماعت اسلامی کے کارندوں نے حملہ کرکے ساری پینٹنگز برباد کر دی تھیں۔ “

اس واردات نے مجموعی ثقافتی فضا پر جو اثر مرتب کیا اس کی طرف سراج منیر نے توجہ دلائی ہے لیکن وہ فنکار جو دشت امکاںِ کو نقشِ پا سمجھتا ہو اور اظہار کی وسعت کے لیے مچلتا پھرے، وہ کس کرب سے گزرا ہوگا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ صادقین پر جو گزری اس پر انھوں نے فوری جذباتی ردعمل نہیں دیا۔ اس واقعہ کے اگلے روز انتظار حسین پنجاب آرٹ کونسل گئے تو انھوں نے یہ منظر دیکھا:

” دوسرے دن ہم نے پنجاب آرٹ کونسل میں قدم رکھا تو دیکھا کہ فیض صاحب فکر مند بیٹھے ہیں۔ دانشوروں، ادیبوں، فنکاروں کو جمع کرکے ایک دفاعی بیان جاری کرنے کی فکر کر رہے ہیں مگر صادقین ایسے بے تعلق بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اگر کچھ ہوا ہے تو اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔“

صادقین نے اس واقعے کے بعد فنکار کے طور پر اپنے پھیلائے پر سمیٹ لیے اور خود کو کیلی گرافی تک محدود کر لیا۔ سنہ 1983 میں ضیا الحق کے عہد میں اقبال حسین کی تصویروں کو الحمرا آرٹ کونسل سے ہٹانے اور اٹھوانے کا نادری حکم جاری ہوا، جس پر آرٹسٹ نے اپنے فن پارے مال روڈ پر سرعام رکھ دیے۔

صادقین کے بعد جس فنکار کے فن کا ’جائزہ‘ جنونی طالب علموں نے لیا وہ ممتاز مصورکولن ڈیوڈ تھے۔ انھوں نے مئی 1990 میں فنون لطیفہ کے لیے ’سازگار‘ فضا کی وجہ سے نمائش کے واسطے آرٹ گیلری یا آرٹ کونسل کے بجائے اپنے گھر کا انتخاب کیا لیکن فسادی نجی زندگی کے احترام کا بنیادی انسانی حق پامال کرتے ہوئے وہاں جا دھمکے اور چند منٹوں میں تصویریں برباد کر ڈالیں۔ اسی پر بس نہ کیا۔ حاضرین سے بدتمیزی کی اور گھر سے باہر کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

صادقین، اقبال حسین اور کولن ڈیوڈ کے فن کی پامالی سے ہمارے آرٹ دشمن رویوں کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، جس کا تازہ نشانہ عدیلہ سلیمان کا تخلیقی کام بنا ہے۔ اس واردات کی وجہ ” فحاشی“ نہیں، وہ تخلیقی اظہار بنا، جو ریاست کے ایک لاڈلے کی شقاوت کو، جس پر ”صرف“ 444 افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے، سامنے لاتا ہے۔

Colin David

 آرٹ کی بے توقیری ہمارے قومی خمیر میں شامل ہے، جس کا آغاز پاکستان بننے کے بعد شروع ہو گیا تھا، اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ وحشت ہم پر رفتہ رفتہ طاری ہوئی۔

سنہ 1948 میں کراچی میں فنونِ لطیفہ کی انجمن قائم ہونے کی خبر پڑھ کر ممتاز مزاح نگار پطرس بخاری نے ’ فنون لطیفہ کی انجمن ‘کے عنوان سے مضمون میں ایک دوست کو مخاطب کرکے اپنی معروضات پیش کیں۔ پطرس کے بقول: ” فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں پہلا کام اس انجمن کا یہ نہ ہو کہ چند تصویروں کو مخرب اخلاق اور عریاں کہہ کر جلا دیا جائے، چند مصوروں پر اوباشی اور بے دینی کی تہمت لگا کر کر انھیں ذلیل کیا جائے۔ پا پھر ان پر ایسے لوگ مسلط کردیے جائیں جو ان کے ہنر کو کھردری سے کھردری کوئیوں پر پرکھیں اور ان پر واضح کردیں کہ جس برتری کا انھیں دعویٰ تھا اس کا دور اب گزر گیا۔

ہیں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں

پابستگیِ رسم و رہ عام بہت ہے

(نقوش جشن آزادی نمبر 1948)

Iqbal Hussain

پطرس بخاری کے دوست اور ممتاز ادیب غلام عباس نے ’دھنک ‘کے عنوان سے افسانے میں ایسی مملکت کا خیالی نقشہ پیش کیا جس پر مذہبی انتہا پسندوں کا قبضہ ہو جانے پر معاشرے کے مختلف طبقات پابندیوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ ایسے میں ظاہر ہے فنونِ لطیفہ کی شامت تو آنی ہی تھی۔ ادب پر پابندیوں کے بعد دوسرے شعبوں کی طرف توجہ منعطف ہوئی :

 ” اخباروں میں ہر قسم کی تصاویر یہاں تک کہ کارٹون تک چھاپنے بند کر دیے گئے۔ مصوری، سنگ تراشی، موسیقی وغیرہ کو فنون لہوولعب قرار دے کر ان کی بھی کُلی طور پر ممانعت کردی گئی۔ “

غلام عباس نے سنہ 1968 میں لاہور میں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں ’دھنک‘ پڑھا تو وہاں ہنگامہ ہو گیا، جس کا مختصراحوال انتظار حسین نے لاہور کے بارے میں اپنی یادداشتوں پرمشتمل کتاب ”چراغوں کادھواں “ میں قلمبند کیا ہے۔ :

 ”افسانہ ختم ہوا۔ حلقہ میں قیامت اُٹھ کھڑی ہوئی۔ آج کل حلقے میں اسلام پسند بھی دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے تو قیامت برپا کردی۔ ایک آواز اب تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس شور میں یہ سب سے اونچی اور سب سے غصیلی آواز تھی۔ یہ آواز تھی عبدالقادر حسن کی۔ ہمیں فکر ہوئی کہ کہیں اسلام پسند عباس صاحب پہ نہ ٹوٹ پڑیں۔ بس یہ نوبت آیا ہی چاہتی تھی۔ چند دوست رضا کارانہ آگے بڑھے۔ عباس صاحب کو اپنے حلقے میں لیا۔ بس ہم انھیں وہاں سے کسی طرح لے کر باہر سٹک لیے اور ٹی ہاﺅس میں آکر دم لیا۔ “

غلام عباس نے فنکارانہ بصیرت سے آنے والے دور کی دھندلی نہیں واضح تصویر دیکھ لی تھی، انھوں نے جس صورت حال کا نقشہ افسانے میں کھینچا، اسے سعادت حسن منٹو نے اپنے مضمون ’’اللہ کا بڑا فضل ہے ‘‘میں ان سے بہت پہلے بیان کردیا تھا، جس میں سے مصوری کے بارے میں ٹکڑا ملاحظہ ہو:

 ” مصوری بھی کچھ کم لعنت نہیں تھی۔ تصویریں بنتی تھیں۔ برہنہ نیم برہنہ۔ مصور اپنی پوری قوت، تصورِ حسن کی تخلیق میں صرف کر دیتے تھے، لیکن یہ کفر تھا۔ تخلیق صرف خدا کا کام ہے اس کے بندوں کا نہیں اور پھر حسن کی تخلیق، یہ گناہ کبیرہ تھا۔ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہمارے درمیان آج ایک بھی مصور موجود نہیں، جو تھے ان کی انگلیاں قلم کر دی گئیں، تا کہ وہ اپنی شیطانی حرکت سے باز رہیں… اب یہ عالم ہے کہ اس سرزمین پر آپ کو ایک سیدھی لکیر بھی کہیں دیکھنے میں نہیں ملے گی۔ ایک آدمی بھی ایسا موجود نہیں جو غروب آفتاب کے حسین منظر کو دیکھ کر اسے کاغذ یا کپڑے پر منتقل کرنے کا خیال اپنے دل و دماغ پر لائے، سچ پوچھیے تو اب وہ خوفناک حِس ہی مٹ چکی ہے جسے طلبِ حسن کہتے ہیں، تخلیقِ حسن کی بات تو الگ رہی۔

 …

 اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اب ایسا کوئی عجائب خانہ موجود نہیں جہاں ننگی تصویریں یا صرف تصویریں جنہیں آرٹ کا نمونہ کہا جاتا تھا دیکھنے میں آئیں، ایسے جتنے عجائب خانے تھے ان کو فوراً ہی ڈھا دیا گیا اور ملبہ دریائوں میں ڈال دیا گیا، تا کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).