نان ایشوز کی سیاست


پاکستان کی مجموعی سیاست نان ایشوز یا شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے۔ میڈیا ہویا سیاسی محاذ یا اہل دانش کی سیاسی مجالس سب کا موضوع ہمیں ایسے مسائل نظر آتے ہیں جو قومی مفادات یا سلامتی و خود مختاری سمیت عام آدمی کے مفادات کے بالکل برعکس ہے۔ نظام میں بہتری پیدا کرنا یا اس میں ایسی اصلاحات کو سامنے لانا جو ہمیں ترقی سے جوڑ سکے کے مقابلے میں ہمیں محاذ آرائی، انتشار، ذاتی مفادات بلاوجہ کی ایسی سیاسی مباحت دیکھنے کو ملتے ہیں جو پہلے سے موجود مسائل میں او رزیادہ مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ شخصیات اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست نے ہماری مجموعی سیاست کو نہ صرف نقصان پہنچایا ہے بلکہ لوگوں میں سیاسی لاتعلقی بھی پیدا کی ہے۔ لوگوں میں یہ سوچ وفکر بڑھ بڑھ رہی ہے کہ ملک میں اصل کھیل طاقت کے مراکز کے درمیان اپنی سیاسی کشمکش یا ٹکراؤ ہے۔

یہ اقتدارکے ایوانوں میں لڑائی لڑی جارہی ہے یا طاقت کے مختلف فریقین ایک دوسرے کے بارے بداعتمادی رکھتے ہیں اس کا نتیجہ قومی سیاست او رمعیشت کو عدم استحکام کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی طرح اس کا ایک اور بڑا نتیجہ ہمیں عملی طور پر ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بداعتمادی سمیت بڑی خلیج کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ہمارا مجموعی مزاج مسائل کو حل کرنے والے کا نہیں ہے بلکہ ہم پہلے سے موجود مسائل کو اپنی دانش سے اور زیادہ الجھا دیتے ہیں۔ عملا ہماری حیثیت مسئلہ پیدا کرنے یا بگاڑ پیدا کرنے والے کی ہوگئی ہے جو خود ایک بڑے فکری بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ کیونکہ جب آپ کی تعلیم، سوچ، عقل، فکر اور دانش لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ فکری انحطاط کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ طاقت کے مراکز کے اہم فریقین کیا کررہے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑا مسئلہ ان افراد یا اداروں کا ہے جنہوں نے فکری محاذ پر ایک بڑا کردار ادا کرتے ہوئے بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا تھا۔ کیونکہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ریاست اور حکمران طبقات سمیت طاقت ور اداروں پر مثبت و قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا نہیں کرسکے۔ ہماری سیاست میں اب ہمیں ایک واضح لکیر دیکھنے کو ملتی ہے جو طبقاتی تقسیم کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتی ہے۔

عام لوگوں کے جو بنیادی مسائل ہیں جن میں بے روزگاری، مہنگائی، معاشی بدحالی، عدم تحفظ، عدم انصاف، میرٹ کا قتل، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، ادویات کی قیمتیں، علاج و معالجہ کی سہولتوں سے دوری سمیت کئی ایسی روزمرہ کے معاملات ہیں جو لوگوں میں بدحالی او رپریشانی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ مگر ہمارا ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام اس میں بہتری پیدا کرنے میں ناکام ہے۔

ہم اس بنیادی فکر کو بھول رہے ہیں کہ عام آدمی کی سیاست، سماجیات او رمعیشت کو بہتر او رمضبوط بنائے بغیر ہم نہ تو جمہوری معاشرہ ترتیب دے سکیں گے او رنہ ہی یہاں منصفانہ اور شفاف نظام قائم ہوسکے گا۔ جن لوگوں نے نظام کو بدلنا ہے یا اس میں ایک بہتری پیدا کرکے متبادل سیاست یا نظام کو لانا ہے وہی روایتی طرز کی سیاست میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا مجموعی طور پر نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے جب کہ ہم لوگوں میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شخصیات کو اپنی سیاست کا محور بنانے کا لولی پاپ دے کر ان کو یا تو گمراہ کررہے ہیں یا ان کا پہلے سے زیادہ استحصال کرنے کے کھیل میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ ہمارے ٹاک شوز یا مجموعی طور پر میڈیا کا کردار نان ایشوز کے گرد گھوم رہا ہے اور یہ نظام کی بہتری کی بجائے نظا م کے مقابلے میں افراد کی طاقت کے کھیل کا حصہ بنا ہوا ہے۔ محاز آرائی، لڑائی جھگڑے، الزا م تراشیوں، سیاسی تعصب، نفرت کو پھیلا کر ایسے مسائل کو طاقت دے رہا ہے جو لوگوں کے مسائل نہیں ہیں۔

حکومت او رحزب اختلاف کی سیاست ایک دوسرے کے مخالفانہ عمل کا حصہ بن کر بڑا نقصان پیدا کررہی ہے۔ کیونکہ ان کی سیاست میں اہم قومی معاملات یا ایشوز بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ وہ لوگوں میں جذباتیت پر مبنی سیاست کو اجاگر کرکے حقیقی طور پر اپنے مفادات پر مبنی سیاسی کھیل کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ادارہ جاتی عمل کا مضبوط ہونا، پارلیمانی سیاست کا استحکام، قومی سیاسی پالیسیوں میں عام آدمی کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، قوانین پر عملدرآمد کو موثر بنانا، داخلی جمہوریت کی بہتری، بیوروکریسی کا شفافیت و فعالیت، جوابدہی و احتساب کا شفاف نظام ہماری قومی سیاست اور قیادت کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے جس انداز سے پارلیمانی او رجمہوری نظام کو چلایا جارہا ہے وہ کسی بھی طو رپر جمہوری و سیاسی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔

سوشل میڈیا ایک نئی سیاسی طاقت بن کر ابھرا ہے او راس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن مجموعی طور پر یہاں پر بھی جو مباحث دیکھنے کو مل رہے ہیں اس نے غیر سنجیدہ نوعیت کے موضوعات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ محض ایک پروپگینڈا کا ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کا مقصد نان ایشوز پر مبنی گفتگو کو پھیلانا او رمکالمہ کے کلچر کے مقابلے میں فتوی بازی یا الزام تراشی کی سیاست کو طاقت فراہم کرکے اس موثر طاقت کو غیر اہم بنانا ہے۔ تحمل، برداشت، بردباری، تدبر، فہم فراست ایسے لگتا ہے کہ یہ الفاظ ہماری سیاسی و سماجی ڈکشنری سے نکال دیے گئے ہیں او ران کے مقابلے میں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے کلچر نے طاقت پکڑ لی ہے۔ اس رویے کو کیسے تبدیل کیا جائے خود ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

کبھی کبھی تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم خود اپنے لیے دشمن کے طور پر کافی ہیں او رہمارا عمل خود ایسے معاملات کی جھلک دیتا ہے جو ملک یا لوگوں سے دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات سنجیدگی سے سوچنی ہوگی کہ ہماری یہ نان ایشوز کی عملی سیاست نے ہمارے لیے نئے دریچے کھولے ہیں یا ہمیں واقعی بند گلی میں دکھیل دیا ہے۔ کیونکہ بطور قوم ہم باہر نکلنے او ربہتری پیدا کرنے کا راستہ دیکھ رہے ہیں یا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ایسے قومی ایجنڈے کی ضرورت ہے جو ملک کو اس وقت کے بڑے بحران سے نکال سکے۔ لیکن یہ ایجنڈا روایتی طرز کی سیاست کی مدد کے ساتھ ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں نئے دریچوں کو کھولنا ہے او رمسائل کے حل کے لیے پہلے سے موجود پوزیشن سے ہٹ کر سوچنا او رعمل کرنا ہوگا۔

مجموعی طور پر پورے معاشرے کا ترقی او راستحکا م کے تناظر میں ایک نیا نصاب ترتیب دینا ہوگا۔ نئے نصاب سے مراد ایک ایسی سوچ، فکر اور ایجنڈا جو لوگوں کو تقسیم کرنے کی بجائے جوڑے۔ اگر واقعی ہم نے ترقی کرنی ہے تو یہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ ترقی کسی ایک فریق کے بس کی بات ہے۔ کیونکہ جب بگاڑ اپنی حد سے بڑھ جائے تو معاشرے کے تمام فریقین کو اپنا اپنا ذاتی او رپھر ایک بڑے اجتماعی کردار کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام موجودہ طرز کی سیاست سے نہیں جڑ ا ہوا۔ اس کے لیے سیاست کے نئے کارڈز یا کھیل کے نئے اصول اختیار کرنے ہوں گے۔ بحث و مباحثہ کی بنیاد نظام کی اصلاح ہونا چاہیے ا و ر ایسی اصلاحات جو جدید نظام کا عکاسی بھی کرے اور دنیا میں خود کو ایک مذہب معاشرے کے طور پر پیش بھی کرسکے۔

یہ سب کچھ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ مایوسی ویسے بھی گناہ ہے یا آگے جانے یا بہتری پیدا کرنے کے امکان سے روکتی ہے۔ اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ معاشرے میں موجود تمام فریقین میں اچھے لوگ اجتماعی رنگ اختیار کریں۔ نئی نئی بحثوں کو جنم دے کر نئے راستوں کو تلاش کرنے میں مدد کریں۔ ایک دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوگی جو آج کی سیاست کو چیلنج بھی کریں او رایک متبادل سیاست کے کچھ خدوخال بھی پیش کرسکے۔ کیونکہ جس انداز میں یہ ملک چلایا جارہا ہے یہ ایسے نہیں چلے گا۔ لوگوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہورہی ہے او راس نے تیزی سے بڑھنا ہے۔ اس کے آگے بندباندھنا رائے عامہ پیدا کرنے والوں کی بڑی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے لیے اس طبقہ کو فعال ہونا ہوگا۔

پاکستان میں سیاسی، سماجی، معاشی سطح پر ایک بڑی علمی و فکری تحریک کی ضرورت ہے۔ ایسی تحریک جو لوگوں میں معاشرے کی ازسر نو تشکیل میں مدد کرسکے او ران کو باور کرواسکے کہ بہتر معاشرے کی تشکیل میں ان کا کیا کردار بنتا ہے۔ یہ کام کیے بغیر ایک مذہب اور ذمہ دار معاشرے کی تشکیل نو ممکن نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).