سکھ مسلم دشمنی اور دوستی


پاکستان کی جانب سے کرتار پور راہداری کے ذریعے سکھ یاتریوں کو ان کے مذہب کے دوسرے مقدس ترین مقام تک رسائی دینے کے بعد جہاں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے اس اقدام کو اندرون و بیرون ملک تحسین و ستائش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو دوسری جانب معاشرے کے کچھ حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے کے نقادوں کے پاس چند وجوہات میں سے ایک وجہ جس کا شد و مد سے اظہار کیا جا رہا ہے وہ سکھوں کی جانب سے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے ہندوؤں کی ہم رکابی میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم تھے۔

پاکستان کی نصابی کتابیں اور مقامی مورخین کی تصانیف سکھ جتھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام، ان کی عورتوں کی آبرو ریزی اور ان کے بچوں کے لاشوں کو کرپانوں پر لٹکانے کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔ دوسری جانب سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے مورخین کی کتابوں میں ہندوستان کے بٹوارے کے وقت مسلمان جتھوں کی جانب سے سکھوں کے قتل اور ان کی عورتوں کی عصمت دری کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کو وحشی اور ظالم قرار دیا گیا۔

تقسیم ہند کے وقت جس خون ریزی سے ہندوستان بالعموم اور پنجاب بالخصوص کو گزرنا پڑا اس میں ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلمان اور سکھ اقلیتوں کو بے پایاں جانی اور مالی نقصان سہنا پڑا۔ ان خون آشام گھڑیوں میں مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوئے اور ایک دوسرے کو وہ زخم لگائے کہ تن پر لگے زخم تو مندمل ہو گئے لیکن روح پر لگے گھائل شاید ابھی تک بھرے نہیں اس لیے تو آج بھی اس دور کی تلخ یادیں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے تعاقب میں ہیں۔

مسلمان اور سکھ کیونکر تلواریں اور کرپانیں سونت کر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کے خون سے پنجاب کی سرزمین رنگین کر دی۔ یہ ان دو مذاہبِ کے پیروکاروں کا ایک دوسرے کے گلے کاٹنا تھا جن کے مذہبی اکابرین کے درمیان مہر و الفت کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق رقم ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے فلسفہ مذہب اور تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کے لیے عقیدت کے جذبات پائے جاتے تھے اور مسلمانوں نے اس عقیدت کی وجہ سے بابا گرونانک کی یادگاریں بھی تعمیر کیں۔

اسی طرح سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں مسلمان صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر کے پنجابی کلام کا حصہ بھی شامل ہے۔ جب دونوں اطراف میں ایک دوسرے کے مذاہب اور اکابرین کے لیے اس حد تک احترام و تکریم پائی جاتی ہے تو پھر کیونکر دونوں کی تاریخ میں خون آشام واقعات کی بھرمار ہے؟ سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان مخاصمت اور دشمنی کی بنیاد مغل بادشاہ جہانگیر کے ہاتھوں سکھوں کے چوتھے گرو ارجن سنگھ کے قتل سے پڑی۔

مغل فرمانروا اکبر کی موت کے بعد جب شہزادوں میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تو سکھوں کے گرو ارجن سنگھ نے جہانگیر کے مقابلے میں اس کے بھائی خسرو کا ساتھ دیا۔ جہانگیر فتح یاب ٹھہرا تو اس نے گرو ارجن سنگھ کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سکھوں نے گرو ارجن سنگھ کو شہید گرو کو خطاب دیا اور مسلمان مغل حکمرانوں کے خلاف دشمنی کا رویہ اختیار کیا۔ دسویں گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کو فوجی تربیت دے کر مغلوں کے خلاف ابھارا۔

گرو گوبند سنگھ نے انند پور کو ہیڈ کوارٹر بنا کر سکھوں کی فوجی تربیت شروع کر دی اور مغلوں کے خلاف شورشیں برپا کرنا شروع کر دیں۔ گرو بند سنگھ نے سکھوں کو جنگجو قوم بنا دیا۔ سرہند کے گورنر نے آنند پور پر حملہ کیا تو گرو گوبند سنگھ بھاگ کر تلونڈی پہنچا اور روپوشی کی زندگی اختیار کر لی۔ دو سال بعد منظرِ عام پر ابھرا اور فارسی زبان میں شعروں سے مزین ”ظفر نامہ“ مغل بادشاہ اورنگزیب کو ارسال کیا۔ اورنگزیب نے ظفر نامہ پڑھ کر گرو کو دربار میں بلایا۔

گرو بادشاہ سے ملنے کے لیے روانہ ہوا تو رستے میں اسے اورنگزیب کے انتقال کی خبر ملی۔ گرو گوبند سنگھ وہیں رک گیا اور ایک سال بعد مغلوں کی فوج کے ایک افغان سردار کے ہاتھوں مارا گیا۔ گرو گوبند سنگھ کے قتل کے بعد بھی سکھوں نے مغلوں کے خلاف شورش برپا کیے رکھی۔ اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ نے سکھوں کو شکست دے کر انہیں لاہور سے نکال دیا۔

مغل سلطنت جب کمزور پڑی اور چاروں اطراف سے اس پر حملوں کے نتیجے میں مغل سلطنت کا اثر و نفوذ کمزور پڑنے لگا تو احمد شاہ ابدالی افغانستان سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ دہلی سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی کی فوج نے سکھ بستیوں کو تاراج کیا۔ کرتار پور اور امرتسر میں سکھوں کے مذہبی مقامات ابدالی کے فوج کے نشانے پر رہے۔ مورخین کے مطابق امرتسر میں سکھوں کے مذہبی مقام کو تاراج کیا گیا اور اور مقدس تالاب انسانی لاشوں سے اٹ گیا۔ سکھ تاریخ میں اسے ”وڈا گھلو گھارا“ یعنی گریٹ ہولو کاسٹ سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے نے سکھوں کو بری طرح مجروح کیا اور ان میں نفرت کے جذبات کو پروان چڑھایا۔

پنجاب میں جب سکھوں نے قوت پکڑی اور مہاراجا رنجیت سنگھ حکمران بنا تو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اگرچہ مسلمان امراء رنجیت سنگھ کے دربار میں موجود تھے لیکن اس عہد میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں سے تاریخ کے اوراق رقم ہیں۔ مورخین ہے مطابق سکھوں نے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بھی دخل اندزای شروع کر دی۔ اذان اور ذبیحہ پر پابندی لگا دی گئی۔ مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی۔ شاہی مسجد لاہور کو چھاؤنی اور توپ خانے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ مسجدوں میں ناچ گانے کی مجلسیں رچائی جانے لگیں۔ مسلمانوں میں آج بھی اس دور کو سکھا شاہی دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگریزوں کے برصغیر کے قبضے نے سکھ اور مسلمان دونوں کو برطانوی راج کا غلام بنا دیا۔ انگریز راج میں مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان لاہور میں مسجد شہد گنج کا تلخ واقعہ پیش آیا۔ 1935 میں سکھوں نے شہید گنج کو مسمار کر دیا۔ جس جگہ مسجد شہید گنج واقع تھی اس جگہ پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان عشروں سے تنازعہ ٹھا۔ مسجد کے مسمار کرنے کی حرکت نے مسلمانوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔ وہ گروہوں کی صورت میں بنشہید گنج کی جانب روانہ ہوئے۔ پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی۔ جس میں کئی افراد شہید ہو گئے۔ سکھوں نے مسجد کی جگہ پر گوردوارہ بنا یا۔ تاہم مسلم اکثریتی ملک پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس گرودوارے کو کوئی گزند نہیں پہنچایا گیا۔

سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہند کے موقع پر خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس نے ماضی کے تمام تلخ و ترش واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پنجاب کی تقسیم کی جب لکیر کھینچی گئی تو مغربی پنجاب جو پاکستان کا حصہ بنا اس میں اس وقت پچاس لاکھ سکھ اور ہندو آباد تھے۔ اسی طرح ہندوستان کا حصہ بننے والے مشرقی پنجاب میں پچاس لاکھ کے قریب مسلمان آباد تھے۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سکھ اور مسلمان ایک دوسرے پر کچھ اس طرح پل پڑے کہ اس وقت کے خونچکاں واقعات سے رگ و پے میں درد اور اذیت کی ٹیسیں دوڑ جاتی ہیں۔ مسلمانوں اور سکھوں نے کس کا کتنا قتل عام کیا اور کس نے زیادہ مظالم ڈھائے دونوں فریقوں کے دعوے ا س سلسلے میں مختلف ہیں تاہم

اگست 1947 میں ایک رجحان رائج تھا۔ قتل کے بدل قتل، ریپ کے بدلے ریپ، اغوا کے بدلے اغوا، لاشوں سے اٹی ٹرین کے بدلے لاشوں سے بھری ٹرین۔ محمد یعقوب اور کلدیپ سنگھ میں لاکھ دوسرے اشتراک ہوں مذہب مختلف تھا اس لیے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ ظلم و بربریت کاوہ بازار گرم ہوا کہ جس کی انسانی تاریخ میں شاذ ہی مثال ملتی ہے۔ سکھ اور مسلمان جب ایک دوسرے کو مار مار کر تھک جاتے تو پھر سستانے کے بعد پھر یہی کام شروع کر دیتے۔

ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں مغربی و مشرقی پنجاب میں آ بادیوں کے تبادلے کے نتیجے میں مغربی پنجاب میں سکھ ایک قلیل تعداد میں رہ گئے اور مشرقی پنجاب میں مسلمان نہ ہونے کے برابر۔ جب نفرتوں کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو پھر پشیمانی اور ندامت نے دونوں اطراف کو جھنجھوڑ ا۔ ستر برسوں کے بعد جب کرتار پور راہداری کھول کو سکھ یاتری اپنے مقدس کی زیارت کے لیے پہنچے تو وقت نے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو ایک بار دوستی کی لڑی میں پرو دیا۔

نوٹ: اس مضمون کے لیے تاریخی مواد گنڈا سنگھ کی کتاب A brief account of the Sikhs، لیری کولنگز اور ڈومنیق لیپرے کی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ، محمد طفیل کی زیر ادارت چھپنے والے نقوش لاہور نمبر اور قدر آفاقی کی کتاب تاریخ پنجاب سے حاصل کیا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).