ظلم کو ظلم کہتے ہو۔۔۔بڑے ظالم ہو۔۔


”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ بڑا ہی غلیظ نعرہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے تو فیض فیسٹیول میں لگائے گئے اس نعرے پر بے تحاشا تنقید کی جا رہی ہے۔ تنقید کیجیے! ضرور کیجیے! تنقید کاپورا پورا حق ہے آپ کو، بلکہ جناب یہ حق آپ ہی کے گھر کی لونڈی تو ہے۔ اور آپ کے علاوہ حق نامی کوئی لونڈی اور کسی کے پاس ہے بھی تو نہیں۔ ممی ڈیڈی، برگر، فیس بکیے، بگڑے لال جی ایسے ہی ہیں یہ سب اور آپ اپنے فقروں کو ذرا اور چست کریں۔

پر قبلہ اگر گستاخی معاف ہو تو ایک سوال پوچھوں؟ یہ فقرے کن صفوں سے کسے جارہے ہیں؟ اور کیا ان کا مقصد تنقید ہے یا محض ”عادت سے مجبور“ والی بات ہے؟ میرا اس تنظیم سے کوئی بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی ہمدردی ہے البتہ پچھلے چند روز میں ناقدین کی جو تحریریں نظر سے گزریں ان کے پیش نظر یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ بائیس تئیس سال کے بچوں کی ایک ویڈیو سے کوئی اتنا بھی خوفزدہ ہو سکتا ہے؟

شاید یہ خوف اس وجہ سے ہے کہ یہ نوجوان ایسے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں جو نا قابل معافی ہے۔ جی وہی جرم جو اس معاشرے میں شاید قتل یا ریپ سے بھی بڑاسمجھا جاتا ہے۔ یہ دیوانے حق کی بات کرنے لگے ہیں، جی یہ اپنا حق مانگنے لگے ہیں۔ یہ کل کے لونڈے یہ برگر بچیاں اہل جب و دستار سے سوال کرنے لگے ہیں۔ اس سب پر ظلم کی انتہا دیکھیں کہ یہ خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ جس معاشرے کے یہ باسی ہیں جہاں یہ رہتے ہیں وہاں باقی سب کچھ تو برداشت کیا جا سکتا ہے پر جو ظلم انھوں نے شروع کر دیا وہ قابل برداشت نہیں۔

یہ تو ایسے مجنوں ہوئے ہیں کہ انھوں نے ظلم کو صاف اور بر ملا طور پر ظلم کہنا شروع کردیا ہے اور انجان ایسے ہیں کہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ فعل بذات خود ایک ظلم ہے۔ چھوڑیں جناب میں تو اتنی عرض کروں گا ان بچوں کی عقل پر تو پتھر پڑگئے ہیں۔ پر آپ تمام ناقد حضرات تو صاحب عقل ٹھہرے، لہذا چھوڑیں ان کو اور آپ اپنی دانشوری کے کرتب نواز، عمران کی سیاست پر بندر نچا کر ہی کریں۔ ان کل کے لونڈے، لونڈیوں کو گونگے کا گڑ کھلانے کا بیڑا آپ نہ ہی اٹھائیں تو بہتر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).