عبدالسلام کی بچی اٹلی نہ جا سکی


میں نے حامی بھرلی۔
پروفیسر لطف النساء کا یہ روپ انوکھا تھا۔

وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اکیلی رہ رہی تھیں۔ وہ ان کے شوہر اپنے دوبیٹوں کے ساتھ امریکہ آئے تھے۔ ان کے شوہر پی آئی اے میں انجینئرنگ کے شعبے میں اچھے عہدے پر فائز تھے اور وہ خود پنجاب یونیورسٹی میں محنت سے اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ مذہبی آزادی کے سلب ہونے کے باوجود زندگی گزررہی تھی۔ کوئی خاص دکھ نہیں تھے زمانے کے۔

مگر سب کچھ یکایک بدل گیا۔ اس اتوار کی شام کو انہوں نے بڑے دکھ سے اپنی زندگی کی کہانی میرے سامنے کھول دی۔

ایک رات ان کی بیٹی اور داماد کو گھر میں گھس کر گولی ماردی گئی تھی اورمارنے والوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خاندان میں کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ گستاخانِ رسول کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے پاکستان میں۔ چُن چُن کر ماریں گے انہیں۔ جہنم پہنچادیں گے ہر اس احمدی کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے۔ تم لوگوں کے لئے کوئی رحم نہیں ہے کیونکہ تم لوگ ڈنمارک اور یورپ میں بیٹھ کر ہمارے آخری نبیؐ کے کارٹون بنوانے ہو۔ یہ سب ان کی مرتی ہوئی نواسی نے ہسپتال میں سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان بتایا تھا۔ پھر وہ بھی مرگئی تھی دس دنوں کے اندر۔

ہماری تو دنیا ہی اُلٹ گئی۔ ہم پر بہت کچھ گزرا تھا، دوست عزیز رشتہ داروں کو مارا پیٹا گیا مگر جب اپنی ہی بیٹی قتل ہوجائے، اس کے پورے خاندان کو مٹادیا جائے تو پھر زندگی میں کچھ رہتا نہیں ہے۔ انہوں نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے کہا تھا۔

میری نظروں کے سامنے راشدہ کا چہرہ آگیا۔ وہی خوبصورت بڑی بڑی ذہین آنکھوں کے ساتھ کھِلتا مسکراتا چہرہ۔ ہر وقت تازہ اور بروقت بحث کرنے کو تیار۔ عبدالسلام کی بچی کو کیسے گولی ماردی لوگوں نے۔ کوئی کیسے مارسکتا ہے ایسے چہرے کو۔ میرا سر گھومنے لگا، میں کوشش کے باوجود اپنے آنسوؤں کو نہیں روک سکا۔ عبدالسلام کی بچی اٹلی جانے سے پہلے ایسے مرجائے گی، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ہم لوگ امریکہ چلے آئے۔ نہ میری پروفیسری رہی اور نہ ہی وسیم کی پی آئی اے کی نوکری۔ گھر کے اُجڑنے کے قصے میں نے کتابوں میں پڑھے تھے تو صحیح احساس نہیں ہوا جب اپنا گھر اُجڑا تو پتہ لگا کہ اُجڑنا کیا ہوتا ہے۔ بچی کی موت کیا ہوتی ہے نواسی کا قتل ہوتا ہے تو کیسا لگتا ہے، داماد کو ماردیا جاتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے، دکھ کا کوئی شمار نہیں ہے۔

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئیں اور میں ان کے ویران چہرے پر لکیروں کو گن رہا تھا۔

انہوں نے اپنے آنسو پوچھے پھر آہستہ سے بولیں، ”وسیم راشدہ کے لئے روتے روتے ایک دن چلے گئے، دونوں بیٹے امریکہ میں ہی دوسری ریاستوں میں جدوجہد کررہے ہیں۔ زندگی کی کشتی چلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اس امید کے ساتھ کہ ایک دن وہ اس ملک میں صحیح طریقے سے کام میں لگ جائیں گے۔ وہ مجھے کام سے منع کرتے ہیں۔ مجھے کام کی ضرورت بھی نہیں ہے مگر وقت تو گزارنا پڑتا ہے۔ رات تو راشدہ کے لئے روتے روتے گزرجاتی ہے اگر دن کو کام نہ کروں تو دن بھی روتے ہی گزرے گا۔ “

”بہت برا ہوا ہے آپ کے ساتھ اور نہ جانے کب تک یہ ہوتا رہے گا آپ جیسے لوگوں کے ساتھ۔ میں نے دکھ کے ساتھ انہیں جواب دیا۔ مجھے لگا جیسے میں بے معنی الفاظ کہہ رہا ہوں جن کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ بے کار کی باتیں ہیں، الفاظ ہیں محض الفاظ۔ “

”بُرا تو ہوا ہے تم صحیح کہہ رہے ہو۔ اس سے زیادہ کیا بُرا ہوسکتا ہے۔ جب حاملہ بیٹی اس کی چھوٹی سی بچی اور اس کا باپ قتل کردیئے جائیں، جب گھر کو آگ لگادی جائے، جب اپنا شہر چھوڑنا پڑے، جب بے وطنی میں شوہر کی موت ہوجائے، جب زندگی کی جدوجہد ایک بوجھ بن جائے۔ اس سے زیادہ بُرا نہیں ہوسکتا ہے۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ میں خاموشی سے ان کے چہرے کوتک رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں بڑا درد تھا۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔

”اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، بالکل بے آواز۔ انسان اپنے کام کرتے ہیں اور وہ اپنا کام کرتا ہے۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ کیا ہورہا ہے پاکستان میں۔ “ ان کے چہرے پر بڑا سا سوالیہ نشان تھا۔

”بُرا ہورہا ہے، کچھ اچھی خبر نہیں آتی وہاں سے۔ جب بھی خبر سنتا ہوں بُری خبر ہوتی ہے جو خط آتے ہیں بُرے آتے ہیں، جو ای میل کرتا ہے اس میں سوائے تباہی کی باتوں کے کچھ اور ہوتا نہیں ہے۔ “ میں نے جواب دیا۔

جن لوگوں نے میرے بچوں کو ختم کیا وہ سارے کے سارے خاندان تباہ ہوگئے، ایک ایک کرکے قتل ہوگئے، جلادیئے گئے، بموں کے دھماکوں کا نشانہ بن گئے، ان کے اپنے لوگوں نے انہیں موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ میں نے کبھی بھی بدلہ اورانتقام کی خواہش نہیں کی مگر اوپر والے کے اصول اوپر والا ہی جانتا ہے۔ ہمارے مذہب میں بدلہ نہیں ہے صبر ہے، جبر نہیں ہے امن ہے، ظلم نہیں ہے معافی ہے۔ اوپر والے نے کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا یہ سب کچھ۔ ان کے چہرے پر درد تھا، دکھ تھا، بے سکونی تھی، بے چینی تھی ان سب کے ملے جلے امتزاج نے ان کے چہرے پر عجیب سی کیفیت طاری کردی تھی۔
میں صرف سوچتا رہ گیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3