فیض احمد فیضؔ ( 1911 ء تا 1984 ء)۔


مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔ جوکوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

”اب جبکہ کائنات کے راستے ہم پر کشادہ ہو گئے ہیں۔ ساری دنیا کے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں تو کیا انسانوں میں ذی شعور، منصف مزاج اور دیانت دار لوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کا منوا سکے کہ یہ جنگی اڈئے سمیٹ لو۔ یہ بم اور راکٹ، توپیں، بندوقیں سمندر میں غرق کردو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب ملکر تسخیر کائنات کو چلوجہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے، جہاں کسی کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں لامحدودفضائیں ہیں اور ان گنت دنیائیں ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور مشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی برادری سے یہ بات منوا کر رہیں گے۔ ”امن کی خواہش، انسانی عظمت کے قائل اور تسخیر کائنات کے لیے باہمی عداوتوں اور جھگڑوں کو ختم کردینے والی سوچ اور الفاظ صرف فیض احمد فیض کے ہی ہو سکتے ہیں۔ فیض صاحب نے یہ تاریخی کلمات ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام کی پرشکوہ تقریب کے موقع پر ادا کیے۔

فیض صاحب 13 فروری 1911 ء کو ایک جاٹ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش ضلع سیالکوٹ میں نارووال کے نزدیک ایک گاؤں کالا قادر میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی کا نام خان بہادر سلطان محمد خان تھا جو کہ ایک معروف وکیل تھے اور افغانستان کے امیر عبدالرحمان خان کے میر مُنشی بھی رہے۔ آپ کی والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا۔ فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز روایتی انداز میں ہوا۔ بچپن میں فیض نے قران پاک کے تین پارئے بھی حفظ کیے مگر آنکھوں میں تکلیف کے باعث اس سعادت سے محروم رہے۔

1916 ء میں فیض صاحب مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کے مدرسے میں داخل ہو گئے جہاں انہوں نے ابجد پڑھی اور عربی، فارسی کی ابتدائی کتابوں کے علاوہ قران و حدیث کا بھی درس لیا۔ 1921 ء میں فیض صاحب کا داخلہ اسکاٹ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں ہو گیا اور جماعت چہارم سے میڑک تک یہاں پر تعلیم حاصل کی۔ 1928 ء میں میڑک کا امتحان امیتازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد مرئے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور ایف۔ ائے کے امتحان میں بھی اول آئے۔

ایف۔ ائے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی۔ ائے کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ دورانِ تعلیم فیض صاحب کے والد انتقال کر گئے اور وہ شدید معاشی پریشانی کا شکار ہو گئے۔ فیض صاحب نے ملازمت کر لی اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 1933 ء میں ایم۔ ائے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ دوران تعلیم فیض کو کامل اساتذہ کی قربت حاصل رہی جن میں پطرس بخاری اور لینگ ہارن جیسے اساتذہ شامل تھے۔ 1934 ء میں اورینٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم۔

ائے عربی میں داخلہ لیا اور یہ امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1935 ء میں ایم۔ ائے۔ او کالج امرتسر سے فیض صاحب نے انگریزی کے استاد کی حیثیت سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور 1940 ء میں فیض لاہور آگئیاور ”ادب لطیف“ کے مدیر ہوگئے اور اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ 1940 ء میں ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں استاد مقرر ہوئے اسی دوران 1941 ء میں فیض کی شادی ڈاکڑ تاثیر کی سالی ایلس جارج کے ساتھ اسلامی طریقے سے سرانجام پائی۔

ان کا نکاح مشہور کشمیری سیاست دان اور وزیر اعلی شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ فیض صاحب کی والدہ نے ایلس فیض کا اسلامی نام کلثوم رکھا۔ فیض صاحب کو قدرت نے دو بیٹیوں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی سے نوازا۔ فیض صاحب 1942 ء سے دسمبر 1946 ء تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ رہے۔ آپ نے کیپٹن کے عہدئے پر ملازمت شروع کی اور 1943 ء میں میجر کے عہدئے پر ترقی پا گئے۔ اس سال فیض صاحب کو فوجی خدمات کے صلہ میں ایم۔ بی۔ ای کا خطاب ملا اور آپ 1944 ء میں کرنل بنے۔ 1946 ء میں فیض نے فوج سے استعفی دے کر صحافت کا دوبارہ آغاز کیا ور انگریزی اخبار ”پاکستان ٹائمز“ اور اردو اخبار روزنامہ ”امروز“ کے مدیر ہو گئے۔

پاکستان بننے کے بعد سیاست کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور 1948 ء میں سان فرانسسکو (امریکہ) میں ہونے والی مزدور تنظیم کے مندوبین میں شامل تھے اور اس سال ضیض کو عالمی کونسل کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ 1951 ء میں آل پاکستان ٹر یڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 9 مارچ 1951 ء میں فیض صاحب کو مشہو ر زمانہ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا اور فیض صاحب کی یہ اسیری 4 سال 2 ماہ پر محیط تھی۔

1955 ء میں فیض جیل سے رہا ہوگئے۔ عہد اسیری میں فیض نے دو مجموعے ”دست صبا“ اور ”زنداں نامہ“ مرتب کیے اور اپنے تنقیدی مضامین کو ”میزان“ کے نام سے ترتیب دیا۔ 1959 ء تا 1962 ء تک پاکستان آرٹس کونسل کے سیکرٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ 1962 ء سے لے کر 1964 ء تک لندن میں مقیم رہے اور 1964 ء میں فیض کو ان کی امن پسندی، انسان دوستی کی وجہ سے سوویت یونین کی طرف سے لینن امن ایوارڈ ملا۔ 1964 ء میں لندن سے وطن واپسی پر عبداللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل اور عبداللہ ہارون ٹرسٹ کے نگران مقرر ہوئے۔

1972 ء سے 1977 ء تک نیشنل کونسل آف آرٹس کے صدر اور حکومت پاکستان کی وزارت امور ثقافت کے مشیر رہے۔ 1976 ء میں فیض احمد فیض کو ”ایفرو ایشیائی ادبی لوٹس ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔ 1978 ء میں فیض صاحب بیروت چلے گئے اور ایفروایشیائی رائٹرز فیڈریشن کے سہ ماہی مجلہ لوٹس کی ادارت سنبھالی اور 1982 ء تک اس کے مدیر رہے۔ بیروت پر اسرائیلی حملے کے بعد فیض نومبر 1982 ء میں پاکستان واپس آگئے۔ فیض نے انسانی فکر اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی شاعری کے ذریعہ خوبصورت انداز میں ترجمانی کی ہے۔

فیض نے آ ج کی دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی محرکات کے زیر اثر شعر کہے ہیں۔ اُن کی شاعری انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ فیض کی شاعری دو متضاد کیفیتوں سے آشنا ہے۔ بے پناہ محبت اور سرشاری اور بے پناہ درد و کرب۔ برصغیر پاک و ہند میں غزل کی حیات ِنو اور مقبولیت میں فیض کی غزل کا نمائیاں حصہ ہے۔ بہت کم تعداد میں غزل لکھنے کے باوجود فیض صاحب کے حصے میں بے پناہ مقبولیت آئی ہے۔ اُن کی شاعرانہ خوبیوں کی بناء پر فیض کو اقبال کے بعد بڑا شاعر کہا گیاہے۔

فیض کے شعری مجموعے درج زیل ہیں۔ نقش فریادی، دستِ صبا، ذنداں نامہ، دستِ تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہر یاراں، مرئے دل مرئے مسافر کے علاوہ فیض صاحب کے منتخب کلام کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں جن میں انگریزی، فرانسیسی، روسی، فارسی، عربی، چیکوسلواکیہ، ہنگری، جاپان، منگولین، بنگالی، ہندی، اور نیپالی شامل ہیں۔ فیض صاحب کی نثری تصانیف میں میزان (تنقیدی مضامین) ، صیلیبیں مرئے دریچے میں (خطوط) ، متاع لوح وقلم (تقاریر اور متفرق تحریریں ) ، مہ و سال آشنائی (یادیں اور تاثرات) ، قرضِ دوستاں (مقدمے، دیباچے اور فلیپ) شامل ہیں۔ یہ عظیم شاعر اور نثر نگار 20 نومبر 1984 ء کو حرکت قلب بند ہونے کے سبب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ فیض احمد فیض کی آخری آرام گاہ قبرستان جی بلاک، ماڈل ٹاؤن، لاہور میں واقع ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).