انصاف کا پیمانہ ایک جیسا نہیں


نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے علاج کے لیے حکومتی شرائط کے برعکس بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تو وزیراعظم صاحب سرکاری و سیاسی مصروفیات سے دو دن کی چھٹی لے کر اپنے گھر بنی گالا جا بیٹھے۔ یہ بات خلاف معمول تھی، کیونکہ اس سے قبل عمران خان کے چھٹی پر جانے کی خبر کبھی سنائی نہیں دی۔ کچھ تجزیہ کاروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ عدلیہ کے فیصلے پر نا خوش ہیں اور اسی لیے ”منہ بسور“ کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔

جب وہ چھٹی سے واپس آئے تو ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے جس طرح پھٹ پڑے اس سے کسی حد تک ان باتوں کی تصدیق بھی ہو گئی۔ اپنی تقریر میں سیاسی حریفوں پر گرجنے برسنے کے ساتھ ان کا شکوہ تھا کہ یہاں کمزور اور طاقتور کے لیے الگ قانون ہے۔ بلکہ موجودہ اور آئندہ آنے والے چیف جسٹس کا باقاعدہ نام لے کر اپیل بھی کر دی کہ وہ انصاف کا پیمانہ ہر طبقے کے لیے یکساں بنا کر نظام انصاف پر اعتماد بحال کریں۔

اس شکوے کی وجہ یقینا میاں صاحب کو عدالت سے ملنے والا ریلیف تھا۔ حالانکہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ملنے والی ضمانت خود ”حکومتی ڈھیل“ سے ملی تھی۔ ان باتوں سے پہلے سے موجود یہ تاثر تو یقین میں بدل ہی گیا ہے کہ عمران خان ہمدردانہ جذبات سے بالکل عاری ہیں اور انہوں نے ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ طوعاً و کرہاً کیا تھا۔ لیکن یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ انصاف کا معیار سب کے لیے یکساں بنانے کی خواہش پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ خواہ انہوں نے مجبورا یہ کام کیا ہو لیکن اگر وہ ”کڑوا گھونٹ“ پینے سے انکار کر دیتے اور حکومت ضمانت کی کھل کر مخالفت کرتی تو نواز شریف کا باہر جانا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

چیف جسٹس صاحب نے یہی وضاحت دی کہ عدلیہ پر اس کی ذمہ داری نہ ڈالی جائے ہائیکورٹ نے تو صرف طریقہ کار طے کرنے میں مدد دی ہے۔ انہوں نے یہ تنبیہ بھی کی کہ ہمیں طاقتور سے مرعوب ہونے کا طعنہ نہ دیا جائے اور نا ہی ہمارا موازنہ دو ہزار نو سے پہلے والی عدلیہ سے کیا جائے۔ ہمارے لیے سب سے طاقتور قانون ہے۔ اس کی مثال کے طور پر انہوں نے یاد کرایا کہ عدالتوں سے دو وزیر اعظم سزا پا چکے ہیں اور ایک آرمی چیف کا فیصلہ آنے والا ہے۔

جہاں تک اس تناظر میں دیکھا جائے جس کے بارے چیف جسٹس صاحب بات کر رہے تھے ان کی بات سولہ آنے درست ہے اور اس سے رتی برابر اختلاف کی گنجائش نہیں۔ لیکن بات کو اگر تاریخی تناظر اور Big picture کو پیش نظر رکھ کر دیکھیں تو وزیراعظم صاحب کی بات بھی غلط نہیں۔ نظام عدل پر یقین اس ملک میں غیر متزلزل ہے اور جہاں اس کی بنیاد امیر و غریب کے لیے الگ پیمانہ موجود ہونا ہے وہیں ایک طبقے کے لیے ایک ہی جیسے مقدمات میں عدالتوں سے مختلف فیصلوں کا سامنے آنا بھی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب بلاشبہ نہایت پروفیشنل شخصیت ہیں اور باتوں سے زیادہ کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ پیشروؤں کے برعکس انہوں نے خود نمائی سے اجتناب کرتے ہوئے ازخود نوٹس بالکل نہیں لیے بلکہ پہلے سے موجود مقدمات نمٹانے کو ترجیح دی۔ ان کی سربراہی میں ای کورٹس کا قیام اور اتنی تعداد میں مقدمات کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ اس کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ میڈیا سے متاثر ہوئے بغیر اپنے کام پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے وزراء کے بہت سے غیر محتاط بیانات کا اب عدالتوں کی طرف سے نوٹس نہیں لیا جاتا۔

لیکن انتہائی ادب اور معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ فردوس عاشق اعوان، غلام سرور خان، فواد چوہدری اور خود عمران خان کی باتوں پر جس درگزر سے کام لیا جا رہا ہے دیگر سیاستدانوں سے بھی یہی رویہ رہا۔ دو ہزار نو کے بعد افتخار چوہدری اور ثاقب نثار والی عدلیہ ہوتی تو اس طرز کلام پر رعایت مل سکتی تھی۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف تو چلیں وزیراعظم تھے اور ہمارے یہاں اس منصب پر بیٹھنے والوں کا مقدر اچھا نہیں۔ نہال ہاشمی، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کا جرم محض جوش خطابت نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کا کیریئر ہی ختم ہو گیا۔

اس کے علاوہ جب بات نظام عدل کی ہو تو صرف عدلیہ تک محدود نہیں رہا جا سکتا۔ بہت سے دیگر ادارے بھی اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ نظام کی شفافیت پرکھنے کے لیے تمام اداروں کا طرز عمل دیکھنا پڑے گا۔ احتساب سے متعلقہ ادارے نیب کی ہی مثال دیکھ لی جائے۔ پچھلے دو تین سال سے یہ مخصوص سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف ہے۔ ایک طرف تو کچھ لوگوں پر بے بنیاد مقدمات قائم کیے جاتے ہیں، میڈیا ٹرائل سے شہرت داغدار کی جاتی ہے اور ریفرنس فائل کیے بغیر مہینوں حراست میں رکھا جاتا ہے۔

دوسری طرف وہی نیب حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے آنکھیں موند لیتی ہے۔ حالانکہ ان میں سے بہت لوگوں کے بارے شواہد بھی دستیاب ہیں اور تحقیقات بھی مکمل ہو چکی ہیں۔ نہ تو مگر گرفتاری عمل میں لائی گئی اور نہ ہی ریفرنس فائل کیا گیا۔ کیونکہ چیئرمین نیب صاحب کی زبانی یہ سن چکے ہیں کہ اس طرف ایکشن اس لیے نہیں ہو رہا کہ حکومت گرنے کا خدشہ ہے۔

اسی طرح ہم نے دیکھا کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد اس کے امیدواروں کو سینیٹ الیکشن کے موقع پر انتخابی نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس کئی سالوں سے پینڈنگ پڑا ہے اور اس کے بانی ارکان میں سے ایک اکبر ایس بابر انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ”ہنڈی“ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے تحریک انصاف ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی تھی۔

حالانکہ الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق کسی سیاسی جماعت کو غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔ قانون اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی شخص، غیر ملکی ٹریڈ کمپنی، حکومت یا ادارے سے فنڈنگ نہیں لے سکتی۔ تحریک انصاف پر یہ الزامات اگر واقعتا درست ہیں تو یہ آئین و قانون کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ براہ راست ریاست کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے لہذا اس کی فورا تحقیق ہونے چاہیے۔

جب تک اس طرح کی مثالیں برقرار رہیں گی، نظام عدل پر سوالات ہوتے رہیں گے۔ ہمارے وزیراعظم کا نظام عدل کا اعتبار قائم کرنے کا مطالبہ اور جذبہ لائق تحسین ہے اور ریاست کی تشکیل ریاست مدینہ کی طرز پر کرنے کی خواہش بھی قابل قدر ہے۔ یہ مگر اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک وہ حضرت عمرؓ کی طرف پہلے خود اپنی ذات اور جماعت کو مواخذے کے لیے پیش نہ کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).