پینے کا صاف پانی مانگنے والا بھی اب غدار؟


صاف پانی مانگنے والا غدار ہے، کینٹین میں صاف ستھرا کھانا مانگنے والا بھی غدار ہے، بہتر طبعی سہولیات مانگنے والا بھی غدار ہے، فیسوں میں کمی کا مطالبہ کرنا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے، ٹرانسپورٹ کا بہتر نطام مانگنے والا ہر طالب علم غدار ہے، جی ہاں! ہر وہ طالب علم غدار ہے جو طلباء یونین کی بات کرے گا، ہر وہ طالب علم غدار ہے جو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرے گا۔

یہ ہم کوئی مقبوضہ کشمیر یا فلسطین کی بات نہیں کر رہے یہ بات ہو رہی ہے جامعہ سندھ جامشورو کی، جہاں ہاسٹل میں صاف پانی کا مطالبہ کرنا والے 17 طلباء پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں استاد، ملازم، افسر، وکیل، چپڑاسی اور خاکروبوں کی یونین ہے پر پابندی صرف طلباء کی یونین پر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلباء بے یارو مددگار ہیں، جس کا جب بھی دل چاہتا ہے وہ طلباء پر بہیمانہ تشدد کردیتا ہے، جس کا جب بھی دل چاہتا ہے طلباء کو ہراساں کردیتا، جس کا جب بھی دل کرتا ہے طلباء پر مقدمات درج کروادیتا ہے، جس کا جب دل کرتا ہے طلباء کو غدار قرار کردیتا ہے۔

غالباً دو ہفتے پہلے جامعہ سندھ کی ہاسٹل کے باہر طلباء نے صاف پانی کی فراہمی کے لئے پر امن احتجاج کیا، نہ وائس چانسلر نے طلباء کے مطالبات سنے، نہ ہی کوئی انتظامیہ کا آدمی طلباء سے بات چیت کے لیے آیا، تاہم رات کے پچھلے پہر ایس ایچ او جامشورو نفری کے ساتھ طلباء کو حراساں کرنے کے لیے پہنچے اور طلباء کو احتجاج ختم نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، اور دو روز پہلے یعنی 19 نومبر کو سرکاری مدعیت میں جامعہ سندھ کے 17 طلباء کے خلاف بغاوت کا کیس درج کیا گیا ہے۔

اس من گھڑت کیس میں ایسے طلباء کو بھی شریک کیا گیا ہے جو ہاسٹل میں رہتے تک نہیں، دوسری طرف جامعہ سندھ کے وائس چانسلر فتح محمد برفت نے کیس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے آپنا آپ بچانے کی کوشش کی ہے، جبکہ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ وائس چانسلر فتح برفت ہر اس طلباء اور استاد کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کرتے ہیں جو انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز بلند کرتے ہیں اور یہ وی سی مبینہ طور پر طلباء دشمنی میں اتنی حد تک گر چکے ہیں کہ طلباء کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔

بغاوت کے اس من گھڑت کیس میں جامعہ سندھ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ایاز کھوسو کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ ایاز کھوسو نامی طالب علم کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں اور نہ ہی وہ ہاسٹل میں رہتے ہیں، کم و بیش سارے طلباء پر اس کیس کے نام پر انتقامی کارروائی کی گئی ہے۔ وائس چانسلر کو چاہیے کہ بجائے اساتذہ اور طلباء کے سوشل میڈیا پروفائلز چیک کرنے کی اپنی کارکردگی پر غور کریں اور یونیورسٹی میں آئے روز لڑکیوں کو جنسی حراسانی سے بچانے کے لیے اقدامات کریں اور ہاسٹل میں طلباء کو سہولیات مہیا کریں۔

70 کروڑ روپے سے زائد کرپشن میں ملوث وائس چانسلر جو اپنی معطلی کا فیصلہ معطل کروا کے اپنی کرسی پر براجمان ہیں دراصل وہ طلباء کی آواز سے خوفزدہ ہیں اور اس آواز کو دبانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، اس کرپٹ وائس چانسلر کے دور میں جامعہ سندھ میں مالی خسارہ پیدا ہوچکا ہے، 70 کروڑ سے زائد کرپشن اور جعلی بھرتیوں کا کیس بھی موصوف پر چل رہا ہے۔

کیا اب طلباء ان کرپٹ لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائیں؟ یا پھر اپنا حق نہ مانگیں؟ صاف پانی کا مطالبہ کرنے بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا اب جامعہ سندھ کے طلباء غلاظت شدہ پانی اور مضر صحت کھانے کھائیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب طلباء کو چاہیے۔

جالب نے شاید ایسی زیادتیوں پر اپنی مشہور زمانہ نظم تحریر کی تھی
ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

جنرل ضیاء کے دور سے طلباء یونین پر پابندی عائد ہے جو آج تک عائد ہے، جمہوریت کی دعویدار جماعتوں نے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی طلباء یونین پر سے پابندی اٹھانے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے، 1988 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا پر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا تاہم 2017 میں بھی سندھ اسمبلی میں قرارداد منظور ہوئی پر افسوس کہ اس پر بھی کوئی عمل نہ ہوسکا حال ہی میں سندھ اسمبلی پھر قرارداد منظور کی ہے پر اس پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اب ضرورت اس عمل کی ہے کہ طلباء یونین پر سی پابندی ختم کی جائے، تا کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نظریاتی سیاستدان پیدا ہو سکیں، ہر اس طلباء دشمنی اقدامات کا راستہ روکا جائے جس سے طلباء کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ جبکہ جامعہ سندھ میں طلباء کے خلاف کیس کو ختم کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).