کرنا میں نے کچھ بھی نہیں


ہمارے بچپن میں ہر گھر میں ایک کرکٹر ضرور ہوتا تھا چاہے اسے کھیلنا آتا ہے یا نہیں لیکن وہ کسی نہ کسی ٹیم میں ضرور شامل ہوتا تھا کیونکہ موبائل کا دور نہیں تھا اور کرنے کو کچھ ہوتا بھی نہیں تھا زیادہ تر بچوں کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہی تھا تو مجبوراً وہی کھیلنا پڑتا تھا۔ لیکن روزانہ صبح سکول سے لے کر محلے کے بچوں کے ساتھ کھیل کھیل کر کافی پریکٹس ہوچکی تھی۔ رہی سہی کسر 92 کے ورلڈ کپ نے پوری کردی اب کرکٹ جنون بن چکا تھا زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ کرکٹر بننا ہے۔

والدین سے بات کی کہ کسی اچھے کرکٹ کلب میں جانا چاہتا ہوں تو ان کو بھی لگا کہ شاید واقعی کرکٹر بننا چاہتا ہے۔ ان دنوں انڈر 15 کرکٹ ٹیم کے ٹرائل چل رہے تھے میں بھی وہاں پہنچ گیا مشہور کرکٹر عامر سہیل کی زیر نگرانی کیمپ جاری تھا مجھے بھی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا تو عامر سہیل کے سامنے عامر سہیل ہی بننے کی کوشش کی اور ان کے مخصوص انداز میں بیٹنگ کے ایکشن مارے یہ دیکھ کر انہیں غصّہ تو بہت آیا لیکن پتہ نہیں کیسے ٹیم میں سلیکشن ہوگئی۔

میرے والد نے جب اخبار میں میرا نام پڑھا تو انہیں بہت خوشی ہوئی لیکن سخت گرمیوں میں کرکٹ کھیلنے سے حشر نشر ہوگیا اور میرا شوق مدھم پڑنے لگا اس دوران جب چھ ستمبر کے دن شہیدوں پر گائے نغمے سنتا تو فوجی بننے کا جذبہ بھی ابھرتا لیکن سات ستمبر کو اتر جاتا۔ کیونکہ اب باڈی بلڈنگ کی طرف رجحان پیدا ہورہا تھا اس دور میں عمیر بٹ بہت مشہور ماڈل تھا اور وہ مسٹر لاہور بھی رہے ان کو دیکھ کر جوش پیدا ہوا کہ ہاں یار جم جوائن کر لیتا ہوں اچھا جسم ہوگا تو شاید عمیر بٹ کی طرح میں بھی ماڈل بن جاؤں۔

اب دن رات جم جا رہا ہوں خوب محنت جاری ہے جو مل رہا ہے کھائے جارہا ہوں ملک شیک، قیمہ، انڈے، کیلے حتا کہ فوڈ سپلیمنٹس بھی خوش قسمتی سے مل رہے تھے ایک دن کوچ نے کہا کہ باڈی بلڈنگ کا مقابلہ آرہا ہے تم نے اس میں حصہ لینا ہے تو سارا دن جم میں گزرنے لگ گیا جس دن مقابلہ تھا اس سے کچھ دیر پہلے کوچ صاحب نائی کو لے کر گھر پہنچ گئے جس نے جسم کے سارے بال مونڈ دیے بالکل بغیر کھال کے لٹکے ہوئے بکرے جیسی حالت ہوگئی جب مقابلے کے لئے ہال میں پہنچا تو سرسوں کے تیل میں براؤن رنگ مکس ہوئی ایک بوتل انتظار کر رہی تھی جس کو میرے پورے جسم پر مل دیا گیا۔

اب جو دوست بھی آرہا ہے وہ دور سے ہی سلام دعا لے کر حوصلہ افزائی کر رہا تھا ایک دوست نے تو میری طرف یوں دیکھا جیسے مجھے گٹر سے باہر نکالا ہو۔ مقابلہ شروع ہوا تو بھرے مجمع کے سامنے خوب زور لگایا کہ بس پاخانہ باہر نہیں آیا باقی سب کچھ باہر آگیا اور پھر میں مقابلہ ہار گیا۔ اب باڈی بلڈنگ سے بھی دل بھر چکا تھا اور ماڈل بن نہیں سکتا تھا کیونکہ جب بہت مشہور فوٹو گرافر خاور ریاض نے تصویر کھینچی تو ان کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے کھانسی کا سیرپ پینے کے بعد ہوتے ہیں۔

مجھے بھی کوئی زیادہ دکھ نہیں ہوا کیونکہ اب دور علی عظمت اور عاطف اسلم کا آچکا تھا اور اب موسیقار بننے کا بھوت سوار ہوچکا تھا۔ دوستوں کی محفلوں میں گنگنانے لگ گیا جی ہاں اب غزلیں اور گائیکی چل رہی ہے کچھ عرصہ یہ سلسلہ بھی جاری رہا ایک دن دوستوں نے کہا کہ بھائی تو اچھا گاتا ہے بس پھر گیٹار خرید لیا اور اب تو بس زندگی میں صرف موسیقی ہی ہے یہ بھی سمجھ لگ گئی کہ اصل میں تو مجھے موسیقار بننا تھا۔ گانا تو اچھا گا لیتا تھا پر کمبخت گیٹار بجانا نہیں آیا اور کوئی بینڈ بھی نہیں بنا۔

ایک روز ایک دوست گانا لکھوانے کے لئے ساغر صاحب کے گھر لے گیا ایک گانا لکھوایا جو کہ اچھا لکھا ہوا تھا وہ لے کر تو مشہور کمپوزر ارشد صاحب کے سٹوڈیو پہنچ گئے ارشد صاحب نے نصرت فتح علی خان کے بہت سے گانے کمپوز کیے تھے۔ جب میرے گانے کی باری آئی اور میں نے گانا شروع کیا تو ایک آواز آئی ”کیا ہوا بھائی ٹھنڈ لگ رہی ہے؟ میں نے کہا جی نہیں وہ ابھی ملک شیک پیا ہے نہ شاید اس وجہ سے۔ وہ بولے بیڑا غرق لوگ گانے کہ لئے گلہ گرم کر کے آتے ہیں تم ٹھنڈا ملک شیک پی کہ آ گئے ہو۔ آج رہنے دو کل ریکارڈنگ کریں گے۔ وہ بات دل کو بہت چبھی اور ایسا محسوس ہوا کہ نہیں بھائی مشکل ہی ہے۔ خیر بہت مشکل سے ایک گانا ریکارڈ ہوا جسے کچھ عرصہ خود ہی سنا اور یقین آگیا کہ اس کام کو معافی دے دینی چاہیے۔

اب کوئی خاص شوق نہیں رہ گیا تھا۔ عمر بھی کمانے والی ہوچکی تھی گھر والوں کو بھی یقین ہو چلا تھا کہ کرنا اس نے کچھ بھی نہیں۔ گھر والوں اور عزیز و اقارب کے تعاون سے بینک میں نوکری مل گئی جہاں دفتر جانے کا وقت تو ہوتا تھا لیکن واپس آنے کا نہیں اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ اگلے دن صبح واپسی ہوتی تھی۔ سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے تقریباً دو سال یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر ایک دن واحد اثاثہ میری گاڑی چوری ہوگئی۔

جب یہ اطلاع دفتر پہنچائی تو انہوں نے افسوس کے ساتھ ساتھ استعفیٰ بھی مانگ لیا۔ نوکری جانے سے زیادہ گاڑی جانے کا دکھ تھا کچھ عرصہ فارغ وقت گزارنے کے بعد ایک دن بھائی نے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن ( پی ٹی وی ) میں تمہاری نوکری کی بات کی ہے اسلام آباد چلے جاؤ شاید کچھ بن جائے۔ اسلام آباد پہنچا تو پتہ چلا کہ خبریں پڑھنے کا کام ملا ہے جس کا کبھی سوچا بھی نہ تھا

کچھ عرصہ نیوز کاسٹنگ کی پھر لاہور اور دوستوں کی یاد ستانے لگی اور کوشش کی کہ لاہور ٹرانسفر کرواؤں واپس لاہور آیا تو پی ٹی وی لاہور سینٹر میں بطور نیوز رپورٹر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ شہر کی گلی گلی نگر نگر گھوما پھرا جیسا خود بننا چاہتا تھا ویسے لوگوں کے انٹرویوز کیے اور اب کئی سال صحافت میں گزارنے کے بعد سوچتا ہوں کہ کچھ اور کر لوں۔
کیونکہ کرنا میں نے کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).