روایتوں کی چتا پر ستی ہونے والی پاکستانی عورتیں


لوگ خود کشی کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں اور کیوں وہ اپنی جان کے آپ ہی درپے ہوجاتے ہیں، یہ موضوع ہمیشہ سے ہی ماہرینِِ نفسیات کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ معاشرے سے جڑے ان گنت مسائل فرد کو خودکشی پر اکساتے ہیں، درست راہنمائی نہ ملنے کے باعث لوگوں کو اپنے ان مسائل کا حل سوائے موت کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک موقر مقامی جریدے میں گذشتہ ماہ شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لوگوں کے اندر پلنے والی بے چینی اور بڑھتے ہوئے اضطراب کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

یہاں تیس سال سے کم عمر شادی شدہ خواتین سب سے زیادہ خود کشی کا ارتکاب کرتی ہیں۔ ہمارے ملک کا قانون خودکشی کو ایک جرم قرار دیتا تو ہے لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر واقعات درج ہی نہیں کیے جاتے۔ رپورٹ میں کافی تفصیل سے پاکستان کے چاروں کونوں میں بسنے والے افراد کی خودکشی کی شرح کو بیان کیا گیا ہے لیکن ایک بات جو ہر جگہ مشترک نظر آئی، وہ شادی شدہ خواتین میں بڑھتا ہوا ڈپریشن ہے، جو اس صنف میں خودکشی کی ایک بڑی وجہ بنتا جارہا ہے۔ پورٹ کے مطابق ڈپریشن کا شکار تینتیس فی صد پاکستانیوں میں نصف سے زیادہ خواتین شامل ہیں اور ان عورتوں کا تعلق معاشرے کے ہر طبقے سے ہے۔

یہ رپورٹ عالمی سطح پر بے شک تشویش کی لہر دوڑا دے، لیکن پاکستانیوں کے لیے اس میں کوئی ایسی چونکا دینے والی یا پریشان کن بات نہیں کیوں کہ سب کی مشترکہ ذہنیت اور مجرم روایتوں نے ہی ایک ایسا معاشرہ تیار کیا ہے جہاں عورت کے لیے شخصی آزادی حرام اور موت حلال بن چکی ہے۔ پہلے خودکشی کے اکادکا واقعات کبھی کبھار اخباروں میں پڑھتے اور تاسف سے سر ہلاکر آگے بڑھ جاتے تھے لیکن اب تواتر سے کسی نہ کسی عورت کی خود کشی کا واقعہ دیکھ اور سن رہے ہیں اور ان رسموں کو رو رہے ہیں جو عورتوں کے لیے پیروں کی بیڑیاں کھولتی تو ہیں لیکن کفن سلنے کے بعد۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس مجھے ان عورتوں پر ہوتا ہے جو خودکشی کی اس کوشش میں بدقسمتی سے ناکام ہوکر سانسوں کی ٹوٹی پھوٹی مالا جپنے کو زندہ بچ جاتی ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی اپاہج بن کر مزید کڑا اور بھیانک امتحان بن جاتی ہے اور سوچنے والوں کے لیے کئی سوالات کے دَر کُھلے چھوڑ جاتی ہے۔

ابھی کچھ دن قبل ایسا ہی ایک واقعہ میری بستی میں بھی رونما ہوا۔ قریب ہی رہائش پذیر عورت نے گھریلو جھگڑے کے بعد روزروز کی اس کِل کِل سے نجات پانے کا راستہ کھڑکی کے ذریعے ڈھونڈا اور دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی، لیکن افسوس کہ اس کا مقصد پورا نہ ہوسکا۔ زندگی سے نجات تو اسے کیا ملتی، مزید ستم ہوا کہ کوئی ہڈی اپنی جگہ سلامت نہ رہی۔ سارے جھمیلوں سے نجات پانے کی دُھن میں معذوری کی زندگی اس کا مقدر ٹھہری۔ دو چھوٹے بچے جو ابھی ماں کے بنا کوئی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہ ہوپائے تھے، اب وہ خالی آنکھیں لیے ماں کو بے یار و مددگار بستر پر پڑا دیکھ رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ کچھ ماہ پہلے رونما ہوا، جس میں ایک عورت نے تیسری منزل سے چھلانک لگاکر خود کشی کی کوشش کی اور انتہائی مجروح حالت میں زندہ بچ گئی۔ تین ماہ میں جسم کے اور سارے زخم تو بھر گئے لیکن ریڑھ کی ہڈی آج تک جُڑ نہ سکی۔ یوں وہ زندہ ہو کر بھی زندوں میں شمار نہیں کی جاسکتی۔ اسی سال سنے گئے ایک اور خودکشی کے واقعے میں موت فتح یاب ہوئی اور زندگی نے شکست کھائی۔ مرنے والی عورت کے تین بچے اس وقت خاندان کے تین مختلف گھرانوں میں ایسے ابتر حال میں پَل رہے ہیں جس کا مرنے والی نے جیتے جی پَل بھر کو بھی تصور نہ کیا ہوگا۔ مختصر مدت میں یہ ایک مخصوص علاقے میں پیش آنے والے واقعات ہیں، پورے ملک کی کیا صورت حا ل ہے اس کا اندازہ آپ سب بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔

اب تک خودکشی کے بہت سارے واقعات قریب سے دیکھ چکی ہوں اور ان کے بارے میں لوگوں کی ”قیمتی آراء“ کا مشاہدہ بھی کرچکی ہوں۔ ہر واقعے کے بعد، چاہے خودکشی کرنے والی عورت زندہ بچ جائے یا پھر مرجائے دونوں صورتوں میں لوگ خدا کے لہجے میں ایک ہی بات بولتے نظر آتے ہیں ”اس نے حرام موت کا انتخاب کیا، اب تو بخشش بھی نہ ہوپائے گی۔ “ دل چاہتا ہے زور سے ٹھٹھہ لگاؤں جب کہ لگانا تو تھپڑ چاہیے۔ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ خودکشی حرام ہے تو اس کا ارتکاب کرنے کی نوبت آئی ہی کیوں؟

کیوں طلاق کے حلال فعل کو جوڑوں پر حرام کر دیا گیا، خصوصاً ایسے دور میں جب معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت نے لوگوں کا مل جل کر رہنا ناممکن بنا دیا ہے۔ یہ عدم برداشت گھر کی حدود میں بھی بڑھتی چلی جارہی ہے، جس کی وجہ سے میاں بیوی آئے دن سر پھوڑتے اور اپنی جنت آپ بے سکون کرتے ہیں، پھر بھی احسن طریقے سے اس علیحدگی کا نہیں سوچتے جس کو اللہ نے کسی ناپسندیدہ صورت سے بچنے کے لیے جوڑوں پر حلال کر رکھا ہے۔

ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورتوں پر چپکائے گئے لیبل اس قدر خوف ناک اور شرم ناک ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے اس کا تصور بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے، یوں فریقین، بالخصوص عورتیں جہنم جیسی زندگی گزارنے کو ثواب سمجھ کر ترجیح دیتی ہیں۔ پھر بھی اگر کسی کی زندگی پوری توانائی صَرف کرنے کے باوجود گھسٹنے کو تیار نہ ہو تو اکثر واقعات میں عورتیں کھلی ہوئی کھڑکیوں اور جلتی ہوئی تیلیوں کا انتخاب کر کے اس زندگی سے فرار حاصل کرلیتی ہیں۔

ان عورتوں کی خدا کے دربار میں بخشش کا معاملہ تو بعد کا ہے کبھی لوگوں نے اپنے گریبانوں میں جھانکا کہ وہ ان عورتوں کو خود کتنا بخشنے کو تیار ہیں۔ یہاں بے شمار عورتیں جانور نما مردوں کے ساتھ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، گالیاں سنتی ہیں، لاتیں کھاتی ہیں، شکی نگاہوں میں تولی جاتی ہیں، آئے دن الزامات کی بھینٹ چڑھتی ہیں، بات بات پر کٹہرے میں کھڑی کی جاتی ہیں لیکن جس کے نکاح میں آگئیں سو آگئیں۔ اسی کے نام پر مرنے پر مجبور کی جاتی ہی اور اکثر خود کو مار بھی لیتی ہیں۔ اسے خودکشی تو نہیں کہنا چاہیے۔ یہ تو قتل ہے اور قاتل ہمارا پورا سماج ہے۔ وہ سماج جس نے قدم قدم پہ عورتوں کے لیے روایتوں کی چتا سلگائی ہے جس میں عورتوں کو ستی ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).