کچھ باتیں علامہ اقبال کے بارے میں


میں آج جس شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاھتا ہوں وہ شخصیت میری زندگی میں ایک خاص مقام رکھتی ہے، دنیا انھیں دانشور، اسکالر، شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر اسلام یا دور اندیش انسان جیسے القاب سے یاد کرتی ہے۔ کچھ لوگ تو انہیں بیسویں صدی کا موجدد بھی مانتے ہیں۔ علامہ اقبال جیسی شخصیت کے بارے میں لکھنا کوزے میں دریا بند کرنے کے مترادف ہے۔

اقبال کی زندگی کے کئی ایک پہلو ہیں اور ہر پہلو کا اپنا ایک منفرد فلسفہ ہے۔

اقبال نے جس دور میں ہوش سنبھالا اس دور میں برصغیر پر انگریزوں کا غلبہ تھا، مسلمانوں کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات مزید بڑھ رہی تھی۔ اپنی دور اندیش صفت کے سبب اقبال نے بہت جلد آنے والے وقت کا ادراک کرلیا تھا اور اپنی تحریروں سے ان حالات کی منظر کشی کرنا شروع کردی۔

اقبال کی تحریروں میں سے ایک فلسفہ جو اس کے ولی اللہ ہونے کا واضح اشارہ کرتاہے وہ ہے اقبال کا شاہین۔

اقبال کا شاہین کون تھا، اقبال کی تحریروں میں شاہین کا ذکر کیوں نمایاں رہا، دراصل شاہین میں کئی ایک ایسی صفات ہیں جو انسان کے لیے یا قوموں کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔

کسی بھی انسان کے لیے سب سے ضروری چیز ہے کہ وہ ایک خودار ہو، قناعت پسند ہو، دور اندیشی رکھتا ہو۔ اور سب سے بڑھ کر درویش صفت ہو

”پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں،

”کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ

اقبال کا شاہین وہ انسان ہے جو آزاد ہوجاتا ہے اپنی میں سے۔ خوف سے، عقل کی غلامی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے، حقائق کو رد کر دیتا ہے اور اپنے خواب کے پیچھے جاتا ہے۔

راستے کے ہر پتھر کو ہٹاتا ہے، جتنی مشکلات آتی ہیں اپنے ارادے اتنے ہی زیادہ مضبوط کرلیتا ہے،

”تندیء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

دراصل اقبال جب شاہین کے فلسفے کی بات کرتے تھے تو ان لوگوں کو ذہن نشین کرتے تھے جو ریاست مدینہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِ نگرانی تربیت حاصل کر رہے تھے، وہ لوگ اپنی میں سے آزاد ہوگئے، اپنی ذات سے باہر نکل کر معاشرے کا سوچنے لگے، ان کے سامنے بڑی سے بڑی طاقتیں بھی گھٹنے ٹیکتے نظر آئی۔

جو لوگ عقل کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں وہ پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ عقل کی غلامی کیا ہے؟ مثلاً جو پہلا انسان دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھا اس کا نام تھا ایڈمنڈ ہیلری، اس سے پہلے جتنے لوگوں نے بھی کوشش کی یا تو وہ مر گئے یا پھر ناکام ہوگئے، لیکن ایڈمنڈ ہیلری عقل کا غلام نہیں تھا، اگر ایڈمنڈ ہیلری بھی دنیا کے حقائق تسلیم کرتا اور عقل کی غلامی میں رہتا تو کبھی دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ پر قدم نہ رکھ پاتا۔

اقبال کے نزدیک زندگی فقط مسلسل آگے بڑھنے کا نام تھی، وقت اور حالات کے بھنور کا جو انسان مقابلہ کرتا ہے وہی انسان اصل میں اشرافل مخلوقات کھلانے کا صحیح حقدار ہوتا ہے۔ انسان ایک مقصد حاصل کرنے کے بعد پھر وہاں ٹھہرتا نہیں، جبھی اقبال نے کہا

”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی“ ہیں

باز اوقات ہم لوگ کسی کو دیکھ کر اپنے ذہن میں یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ خدا کسی کو سب کچھ عطا کر دیتا ہے اور کسی کو مسلسل آزمایش میں رکھتا ہے، لیکن اقبال اس نظریے پر الگ سوچ رکھتے تھے،

”فریب نظر ہے سکوں و ثبات

”تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات

کچھ لوگ بہت جلد خدا کی تقسیم سے مایوس ہو جاتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہی نہیں کہ قدرت کا نظام ہے کہ وہ سب کو سب کچھ نہیں دیتا، کہیں نہ کہیں زندگی کے کسی کونے میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رکھتا ہے تاکہ مخلوق اس کے ہونے کا دم بھی تو بھرتی رہے۔

اقبال اپنے شاہین کے فلسفے سے یہی بات بار بار باور کراتے رہے کہ مسلمان اپنی طاقت کو پہچانے اور اپنی اندر کی صلاحیتوں پر یقین رکھیں، مشکلات، حالات، آزمایش سب ایک قدرت کا نظام ہیں، بڑا انسان وہی ہے جو شاہین کی طرح اپنے پروں کو پھیلا کر طوفانوں کو چیرتا ہوا نکل جاتا ہے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔

تو ڈھونڈے اپنے اندر اقبال کے شاہین کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).