کیا عمران خان نے اداروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟


وفاقی دارالحکومت میں ٹھنڈ سے زیادہ سیاسی گرمی موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف کے لئے جس طرح سے قانون کو موم کی ناک بنا کر ائیرایمبولینس کا راستہ بنایا گیا ہے وزیراعظم اس ”عدالتی سہولت“ پر سخت ناراض ہیں۔ میاں شہبازشریف کی ویڈیو اور تصاویر جو گارنٹی دیتے ہوئے اور اپنے بھائی کے لئے ریلیف لیتے ہوئے ریلیز ہوئی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کے طاقتور مرکز نے شریف برادران کے لئے نرم گوشے کا عملی مظاہرہ کیا ہے اور اسی نرم گوشے کے باعث حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی سرگوشیاں بھی ہورہی ہیں۔

اسلام آباد میں خبرگرم ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ماضی سے لے کر حال تک طاقتور لوگوں کے لئے سہولت کاری کا کام کرنے والے اداروں سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس خبر کو تقویت دینے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران اسٹبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر شادی بیاہ کی تقریبات کے دن بھی مقرر نہیں کرتے اور یہ ہوہی نہیں سکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اسٹبشلمنٹ کی اجازت کے بغیر اسلام آباد میں ”پھیری“ لگا کر الیکٹرانک میڈیا کو انٹرویو دیے ہوں۔

گزشتہ دس دن سے چوہدری برادران الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کو بازوؤں سے پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر حکومت کی ناکامی کا اعترافی بیان دلوایا گیا کہ آئندہ چھ ماہ بعد حالت ایسی ہوجائے گی کہ کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی نے مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیے اور ان کا ایک انٹرویو جس میں انہوں نے براہ راست جنرل (ر) شجاع پاشا کا نام لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمارے بندے توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے اور ہم نے ان سے شکوہ بھی کیا۔

چوہدری پرویز الٰہی کا یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب وزیراعظم تقریباً ہر جلسے اور پلیٹ فارم پر کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ میں 22 سالہ جدوجہد کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچا ہوں۔ وزیراعظم کے اس بیانئے کو ان کے اتحادی چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے انکشاف کے ذریعے رد کردیا ہے۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی سے جب وسیم اکرم پلس المعروف بزدار سرکار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بس چل رہا ہے۔

پچھلے دس دن میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کے بعد مولانا فضل الرحمان چوہدری برادران سے مل کر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان اتحادی ہونے کے باوجود چوہدری برادران سے ناراض دکھائی دینے لگے ہیں۔ ماضی میں عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو بھی کرپشن کے الزام میں ڈاکو کا خطاب دیا تھا جیسا کہ وہ سینکڑوں بار میاں برادران کو کہہ چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تازہ ترین جارحانہ تقریر میں کہا کہ یہ سب میرے علاوہ کسی کو بھی وزیراعظم قبول کرنے کو تیار ہیں، ان کا واضح اشارہ تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کے اتحادیوں کی یہ مشترکہ خواہش ہے۔ پھر وزیراعظم نے کہا کہ مجھے جیتنا بھی آتا ہے اور ہار کے جیتنا بھی آتا ہے، ان کے اس بیان کا مطلب واضح اشارہ دے رہا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اپنی کرسی کھو دینے کے خطرے سے بھی باخبر ہیں اور تمام قوتوں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اب اگر میں ہار بھی گیا تو پھر جیت کر دکھاؤں گا۔

وزیراعظم عمران خان چوہدری برادران کی نقل وحرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو اب چوہدری پرویز الٰہی کے اس آدھے انکشاف پر اعتراض یہ ہے کہ انہیں پورا سچ بولنا چاہیے تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ 1976 ء میں نو ستارے کس جرنیل نے تیار کیے تھے اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل کون سے عسکری ذہن کا کمال تھا؟ چوہدری پرویز الٰہی کو یہ بھی انکشاف کرنا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی پیدائش میں کس نے ”دائی“ کا کردار ادا کیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو یہ گِلا تو ہے کہ جنرل پاشا نے ہمارے بندے توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے لیکن ان حقیقتوں سے وہ چشم پوشی کرتے ہیں جب اسٹبلشمنٹ نے انہیں فرش سے عرش پر پہنچایا۔

وزیراعظم عمران خان کا غصہ اور جارحانہ موڈ بالکل بجا دکھائی دیتا ہے کیونکہ 70 سال کے گند کو صاف کرنے کے لئے چند مہینے کافی سمجھے جارہے ہیں۔ اس دفعہ عمران خان مشکل میں نہیں ہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ اور اس کے ماضی کی اتحادی جماعتیں مشکل سے دو چار ہیں۔ کیونکہ ماضی قریب میں اسٹبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو سکیورٹی رسک قرار دیتی رہی ہے اور اب اگر عمران خان سے بھی نبھانہ ہو پایا تو پھر کئی سوالات اٹھیں گے۔ عوام یہ سوال اٹھائے گی کہ تین بار میاں نواز شریف کا کردار مشکوک رہا اور دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو کو زبردستی اقتدار بدر کیا گیا اور پھر پیپلزپارٹی کے آخری دور حکومت میں آصف علی زرداری پر میموگیٹ سکینڈل تلوار بنا کر لٹکایا گیا۔ تو کیا اسٹبلشمنٹ کے سوا سارے ”بدچلن“ ہیں؟

میاں نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ بارے جو کچھ کیا وہ بھی ٹی وی چینلز کے پاس محفوظ ہے اور اسٹبلشمنٹ نے جو خدشات ظاہر کیے وہ بھی محفوظ ہیں۔ اس لئے حکومت کے اتحادیوں کے ذریعے یہ دباؤ بڑھانا اور وزیراعظم کو باور کرانا کہ آپ 22 سالہ جدوجہد سے نہیں بلکہ جنرل پاشا کی کاوشوں سے اقتدار میں آئے ہو ایک طرح سے سیاسی ”پورنوگرافی“ ہے اور اس میں اب سارے کردار ہی ننگے دکھائی دیں گے۔

پی ٹی آئی نے اگر پلٹ کر وار کیا تو وہ بھی بتائیں گے کہ ماضی میں حکومتیں کیسے بنتی اور کیسے گرائی جاتی رہیں اور پھر سارا دباؤ اسٹبلشمنٹ پر ہی آئے گا۔ شاید اسی لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار عسکری ترجمان نے واضح کیا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، وگرنہ ہر بار یہ دعویٰ سول حکومت ہی کرتی رہی ہے۔

خبرعام ہے کہ وزیراعظم عمران خان سب کا احتساب چاہتے ہیں، بلا امتیاز نوری، ناری اور خاکی کا احتساب ہوتا دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ وزیراعظم نے قریبی دوستوں پر واضح کردیا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کی بجائے وہ اسمبلی تحلیل کرنے کو ترجیح دیں گے اور اقتدار کی بجائے قانون کی حکمرانی کے لئے تحریک چلائیں گے۔ گزشتہ روز وزیراعظم اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات میں کافی معاملات طے ہوچکے ہوں گے۔ اسٹبلشمنٹ اگر یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کے ساتھ سیاسی نکاح کرکے ”حلالے“ کی شرط پوری ہوگئی ہے اور اب ماضی کے دوستوں سے پھر ”رجوع“ کرلیا جائے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہوگا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat